مولانا حسّان رضا خاں نے صدر جمہوریہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ مکمل کرائے جانے چاہیے۔ اسی میں بلدیہ اور پنچایت کے انتخابات بھی شامل کیے جائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات اور پھر اُس کے بعد بلدیہ اور پنچایت کے چناؤ کی علیحدہ تاریخیں ہونے کی وجہ سے ہر برس کوئی نہ کوئی چناؤ ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت کا ماحول قائم رہتا ہے۔
فرقہ پرست طاقتیں ہر انتخابات سے قبل کبھی حجاب، کبھی قرآن مجید کی آیات ہٹانے کا مطالبہ اور کبھی پیغمبرِ اسلامؐ کی شان میں گستاخی کرتی رہتی ہیں، تاکہ ماحول میں فرقہ وارانہ زہر گھولکر سیاسی فائدہ اُٹھایا جا سکے۔
پانچ برس میں ایک بار ایک ساتھ چناؤ ہونے سے ملک کے شہریوں کو فرقہ وارانہ ماحول سے کم از کم پانچ برس کے لیے نجات مل جائے گی۔
مولانا حسّان رضا خان نے اگلے نکتے میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ ان دنوں میڈیا، صرف ایک طبقہ اور اقتدار کو خوش کرنے والا کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔
منصفانہ اور حقیقی خبریں عوام تک پہنچانے والے صحافیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے کسی معمولی جرم میں ملوث ہونے پر اُنہیں دہشتگرد قرار دینے کی نازیبا حرکت کی جاتی ہے۔
ملک کے تمام میڈیا ہاؤسز اور پریس کونسل آف انڈیا سے ہمارا مطالبہ ہے کہ میڈیا اپنے انسٹی ٹیوشنس میں منصفانہ اور حقیقی خبریں نشر کرے اور غیرجانبدارانہ طریقے سے اپنے کردار کو ایک اپوزیشن کے طور پر مضبوطی سے کھڑا کرے۔
اُنہوں نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے تمام طبقات کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔
چّر کمیٹی کی رپورٹ واضح کر چکی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حالت دلیتوں سے زیادہ بدتر ہے۔ لہزا، مسلمانوں کو سرکاری ملازمت میں مواقع فراہم کرائے جانے چاہیے۔
اُنہیں کاروباری اعتبار سے مضبوط کرنے کے لیے اسکیم تیار کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں اُنہیں بینک کے لون مہیا کرائے جانے چاہیے۔
صدر جمہوریہ سے اُنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت میں تمام خانقاہوں، درگاہوں، مساجد اور مدارس کے تحفظ پر بالخصوص غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک یا دو پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا ناکافی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کے مکمل اور پختہ انتظامات کیے جانے چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی وقف بورڈ میں تمام مکتبِ فکر کے مسلمانوں کی شمولیت کے ساتھ سُنّی مسلمانوں کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ صرف نام نہاد چند افراد کو شامل کرنا کافی نہیں ہے۔
تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پرائمری درجہ تک تعلیم حاصل کرکے اسکول چھوڑنے والے بچوں میں مسلمان بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
مسلمانوں میں سرکاری ملازمت ملنے کے تئیں جو خدشات ہیں، اُن کی وجہ سے بھی وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ درجے کی تعلیم دلانے میں کم دلچسپی لیتے ہیں۔ لہذا، اُن میں تعلیم حاصل کرنے کی لازمیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں کی مدد لی جانی چاہیے۔
مسلمانوں کو کاروباری اعتبار سے مضبوط کرنے اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ دینے کے مقصد سے مسلم آبادیوں میں بینک کُھلوائیں جائیں۔ جہاں لون ملنے، نقد لین دین اور اے ٹی ایم لگائے جانے کی ضرورت ہے۔
جانور ذبح کرنے کے لیے صرف کسی ایک سلاٹر ہاؤس یا کمپنی کو پرمیشن دینے سے مالکان کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے اور میٹ کی قیمت بھی مرضی کے مطابق وصول کی جاتی ہے۔ لہٰذا، جانور ذبح کرنے کے کام کی پالیسی میں تبدیلی کرکے چھوٹے سلاٹر ہاؤس قائم کیے جانے چاہئیں۔ جس سے میٹ کے بڑے تاجروں کی اجارہ داری بھی قائم نہیں ہوگی اور چھوٹے کاروباریوں کو بھی روزگار ملے گا۔