اردو ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ترسیل و ابلاغ کی زبان میں بھی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ایسے میڈیم ہے جن میں ہمیں اسکرپٹ لکھنے کے بعد اسے بول کر سامعین یا ناظرین تک پہنچانا ہوتا ہے۔
اس لئے اس میں تحریر کی اہمیت اور ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں یہ فرق ہے کہ ٹیلی ویژن میں ہم بولنے والے کو اور اس کی حرکات و سکنات کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں، لیکن ریڈیو میں ہمیں ساری باتیں سن کر ہی سمجھنی ہوتی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ اردو کے سابق سربراہ اور آل انڈیا ریڈیو میں دس سال ملازم رہے، پروفیسر طارق چھتاری نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ فلم شروع ہونے سے پہلے پارسی تھیٹر تھے، بھارت میں۔ جس میں اردو کے سارے ادیب ڈرامے لکھ رہے تھے اس کے فوراً بعد فلم شروع ہوئی اور وہ سارے لوگ فلم میں لکھنے لگے۔
اس زمانے کی فلم کسی بھی موضوع پر بنی ہو اس مقالمہ بھی اور گانے بھی سب خالص اردو میں اور اچھی اردو میں ہوا کرتے تھے اور سارے ادیب اور شاعر ممبئی پہنچ گئے تھے۔
پروفیسر طارق چھتاری نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ریڈیو کا آغاز ہوا اور 1936 میں اس کا نام آل انڈیا ریڈیو پڑا۔
ریڈیو جب قائم ہوا تو اس کے ڈائریکٹر جنرل پطرس بخاری تھے اور اس کے چھوٹے بھائی احمد بخاری بھی اسٹیشن ماسٹر تھے، ممبئی میں تو انہوں نے تمام اردو کے ادیبوں کو اردو رائٹر کی حیثیت سے وہاں بلالیا تھا وہ کام کیا کرتے تھے ،جس سے اردو کا فروغ بہت ہوا ہے۔
مزید پڑھیں:
ای ٹی وی بھارت کا اسٹنگ : یتیموں کے نام پر فرضی چندہ
ظاہر ہے کہ گھر گھر میں اردو ریڈیو اور فلم کے ذریعے پہنچا ہے پہلے ریڈیو سننے کا چلن بہت تھا، جن کے پاس ریڈیو نہیں تھا تو وہ مختلف جگہوں پر جاکر ریڈیو سنا کرتے تھے تو اردو زبان اور ادب کو فروغ دینے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا بہت اہم رول رہا ہے۔