ایک طرف کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، وہیں مرکزی حکومت گاؤں گاؤں جا کر عوام کے درمیان اس قانون کا دفاع کر رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ، 'پہلے انگریز حکومت نے بھی بھارتی کاشتکاروں سے نیل اور افیم کی کھیتی جبراً کروائی تھی۔ اسی طرح موجودہ حکومت بھی کاشتکاروں کے ساتھ معاہدہ پر کھیتی کروانا چاہتی ہے۔'
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ، 'کوئی بھی کمپنی یا سوسائٹی کاشتکاروں کو کسی بھی فصل کے لیے پیسے دے گی اور معاہدہ کے مطابق کسان کو اسی کمپنی یا سوسائٹی کو اپنا اناج فروخت کرنا ہوگا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر کسان کی فصل میں ذرا سی بھی کسی قسم کی کمی آئی تو کمپنی شرائط کے مطابق طے قیمت پر نہ خرید کر بہت ہی کم داموں پر خریدے گی اور مجبور کسان کو ایسا کرنا پڑے گا۔ اس قانون کے مطابق فصل اچھی ہے یا خراب یعنی اس کا معیار بھی کاروباری ہی طے کرے گا۔
اگر فصل کم اچھی ہوئی تو کمپنی کے لوگ معاہدے کے مطابق خریداری نہیں کریں گے جس وجہ سے کسانوں اور کمپنی کے مابین جھگڑا ہوگا۔ نتیجتا کسانوں کو کورٹ کا رخ کرنا پڑے گا۔ اس میں کسانوں کا ہی نقصان ہوگا۔'
انہوں نے کہا کہ، 'نئے زرعی قوانین کسانوں سے زیادہ عوام کے خلاف ہیں کیونکہ جب کوئی کمپنی یا سوسائٹی خریداری کرے گی تو اس پر کوئی قانون نہیں ہے کہ کتنا خریدنا ہوگا۔ اس سے جمع خوری بہت بڑھ جائے گی اور عام آدمی کو کئی گنا زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد اضافی قیمت کے ساتھ عوام کو فروخت کریں گے لہذا کسان اور عام انسان اس قانون سے متاثر ہوگا بڑی کمپنیاں یا فرم کو مزید منافع ہوگا کیونکہ ان پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا۔'
مزید پڑھیں:
' بی جے پی نے خواب دکھائے، پورے نہیں کیے'
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ، 'نئے زرعی قوانین سے سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہو گا لہذا کسان آندولن کو عوام اپنا آندولن سمجھیں اور اس تحریک میں اپنا پورا تعاون کریں۔'