ETV Bharat / state

'لو جہاد' پر یو پی حکومت کو جھٹکا

author img

By

Published : Nov 24, 2020, 2:32 PM IST

Updated : Nov 24, 2020, 4:37 PM IST

الہ آباد ہائی کورٹ نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 'قانون نے ہر بالغ عورت مرد کو ایک ساتھ رہنے کا حق دیا ہے۔' کورٹ کے اس فیصلے سے یوگی حکومت کے اس قدم پر اثر پڑے گا، جس میں 'لو جہاد' پر قانون بنانے کا اعلان کیا تھا۔

Right to Choose a Partner is a Fundamental Right
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 'لو جہاد' پر یو پی حکومت بیک فٹ پر

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے لو جہاد پر سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی اس پر قانون بن جائے گا لیکن آج الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے اہم فیصلے میں کہا ہے کہ قانون نے ہر بالغ کو ایک ساتھ رہنے کا حق دیا ہے لہذا کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔

اتر پردیش کے ضلع کوشی نگر کے رہنے والے سلامت انصاری اور پرینکا خروار معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ 'قانون ایک بالغ مرد عورت کو اپنی شریک حیات بنانے کا حق دیتا ہے۔ کوئی بھی انسان یا اہلخانہ ان کی زندگی میں دخل نہیں دے سکتے۔ یہاں تک کہ ریاست بھی لوگوں کے معاملے کو لے کر اعتراض نہیں کر سکتی۔'

قابل ذکر ہے کہ سلامت اور پرینکا نے پریوار کے خلاف جا کر مسلم رواج کے مطابق 19 اگست 2019 کو شادی کی ۔ اس کے بعد پرینکا عالیہ بن گئی۔ بعد میں لڑکی کے اہلخانہ نے سلامت انصاری کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، جس میں کہا گیا کہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر بھگا لے گیا ہے۔ سلامت انصاری پر 'پاکسو ایکٹ' لگایا گیا تھا۔

جسٹس پنکج اور جسٹس ویویک اگروال کی بینچ نے سماعت کے دوران کہا کہ عالیہ کی عمر کا مسئلہ نہیں ہے، وہ 21 سال کی ہیں لہذا اس معاملے میں پاکسو ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔

کورٹ نے کہا کہ 'پرینکا اور سلامت انصاری کو ہندو اور مسلمان کے طور نہیں دیکھتے' عدالت نے دونوں خلاف دائر ایف آئی آر کو رد کر دیا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یو پی حکومت کے لو جہاد پر قانون بنانے کے عمل کو دھچکہ لگ سکتا ہے کیونکہ عدالت نے کہا کہ قانون ہر بالغ لڑکے لڑکی کو اپنے پسند کی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ اس پر پریوار ہا ریاست بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی۔ عدالت کسی کو بھی ہندو یا مسلمان کے طور پر نہیں دیکھتی۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے لو جہاد پر سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی اس پر قانون بن جائے گا لیکن آج الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے اہم فیصلے میں کہا ہے کہ قانون نے ہر بالغ کو ایک ساتھ رہنے کا حق دیا ہے لہذا کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔

اتر پردیش کے ضلع کوشی نگر کے رہنے والے سلامت انصاری اور پرینکا خروار معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ 'قانون ایک بالغ مرد عورت کو اپنی شریک حیات بنانے کا حق دیتا ہے۔ کوئی بھی انسان یا اہلخانہ ان کی زندگی میں دخل نہیں دے سکتے۔ یہاں تک کہ ریاست بھی لوگوں کے معاملے کو لے کر اعتراض نہیں کر سکتی۔'

قابل ذکر ہے کہ سلامت اور پرینکا نے پریوار کے خلاف جا کر مسلم رواج کے مطابق 19 اگست 2019 کو شادی کی ۔ اس کے بعد پرینکا عالیہ بن گئی۔ بعد میں لڑکی کے اہلخانہ نے سلامت انصاری کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی، جس میں کہا گیا کہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر بھگا لے گیا ہے۔ سلامت انصاری پر 'پاکسو ایکٹ' لگایا گیا تھا۔

جسٹس پنکج اور جسٹس ویویک اگروال کی بینچ نے سماعت کے دوران کہا کہ عالیہ کی عمر کا مسئلہ نہیں ہے، وہ 21 سال کی ہیں لہذا اس معاملے میں پاکسو ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔

کورٹ نے کہا کہ 'پرینکا اور سلامت انصاری کو ہندو اور مسلمان کے طور نہیں دیکھتے' عدالت نے دونوں خلاف دائر ایف آئی آر کو رد کر دیا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یو پی حکومت کے لو جہاد پر قانون بنانے کے عمل کو دھچکہ لگ سکتا ہے کیونکہ عدالت نے کہا کہ قانون ہر بالغ لڑکے لڑکی کو اپنے پسند کی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ اس پر پریوار ہا ریاست بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی۔ عدالت کسی کو بھی ہندو یا مسلمان کے طور پر نہیں دیکھتی۔

Last Updated : Nov 24, 2020, 4:37 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.