سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’ہندوستان کی جی 20 سمٹ کانفرنس 2023: مواقع اور چیلنجز‘ موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کے اکیڈمک سیشن اور آخری دن منعقدہ سیشن میں بڑی تعداد میں اساتذہ اور ریسرچ اسکالر ز نے شرکت کی اور اپنے مقالات پیش کئے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اکیڈمک سیشن میں ’سرسید کے بین الاقوامی وِژن‘ پر پروفیسر اے آر قدوائی، پروفیسر سعود عالم قاسمی، پروفیسر عبید اللہ فہد، پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر محب الحق نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جب کہ پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے صدارت کے فرائض انجام دئے۔
پروفیسر اے آر قدوائی نے سرسید احمد خاں کے سفر لندن کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ سفر سرسید کے اندر پائی جانے والی جستجو اور چیزوں کو جاننے سمجھنے کی طلب کا اظہار ہے۔ اس سفر کے بارے میں سرسید کی تحریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے علم شناس تھے جو نئے نئے امور کو سمجھنا اور ان کے حوالے سے قوم و ملت کی رہنمائی کرنا چاہتے تھے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے عالمی امور میں سرسید کی خاص دلچسپی اور انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہونے والے ان کے مضامین پر روشنی ڈالی۔ سرسید نے روس اور ترکی کی جنگ سمیت عالمی معاملات پر جو کچھ لکھا ہے پروفیسر قدوائی نے ان کے حوالے سے وقیع گفتگو کی۔
پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہا کہ اسلامی ممالک میں جاری سرگرمیوں پر سرسید کی نظر تھی۔ وہ مشرق و مغرب کا امتزاج چاہتے تھے اور جہاں کہیں بھی بہتر چیزیں ملیں انھیں اپنانے اور غلط و فرسودہ روایات کو ترک کرنے پر زور دیتے تھے۔ پروفیسر عبیداللہ فہد نے ترکی اور دیگر ممالک کے حالات اور عالمی سطح پر ہونے والی تعلیمی پیش رفت اور ترقیات میں سرسید کی خاص دلچسپی کو موضوع سخن بنایا۔
پروفیسر محب الحق نے سرسید کے دور کے عالمی سیاسی منظرنامہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سرسید نے کس طرح عالمی سیاسی اتھل پتھل، بین الاقوامی تجارت سمیت نئے ابھرتے ہوئے موضوعات و تصورات بشمول قومیت و جمہوریت میں دلچسپی لی، انھیں جانا سمجھا اور ان پر اپنے تبصرے کئے۔ اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے خطبات کو سراہتے ہوئے کہاکہ ایک اہم پہلو سے سرسید کی شخصیت اور طرز فکر پر گفتگو کی گئی جس سے شرکاء مستفید ہوئے۔
بین الاقوامی سیمینار کے آخری دن کی نشستوں میں کل پندرہ مقالات پڑھے گئے۔ پروفیسر ظہیرالدین، سابق نائب شیخ الجامعہ، اے ایم یو نے صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مقالات کی نہ صرف تعریف کی بلکہ موضوع کے تنوع پر بھی روشنی ڈالی۔ سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے سبھی شرکاء کا استقبال کیا۔ سیشن میں سب سے پہلا مقالہ پروفیسر صلاح الدین قریشی، ریٹائرڈ پروفیسر شعبہ جغرافیہ نے پیش کیا۔ ان کے مقالہ کا عنوان ” ثقافتی تکثیریت: ہندوستانی قومی ریاست کا امتیاز“ تھا، جس میں انہوں نے ہندوستانی تہذیب، ثقافت، اور جغرافیہ کے تنوع پر اپنے خیالات پیش کئے۔ انہوں نے ہندوستان کو قوس قزح سے تشبیہ دی اور کہا کہ اس ملک کا ہر رنگ اس کو ممتاز بناتا ہے۔
محمد علّام، استاد تاریخ، منٹو سرکل، نے ”اعلیٰ تعلیم میں جی ٹوینٹی ممالک اور ہندوستان کی شراکت“ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خصوصی حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے اعلی تعلیم میں ہندوستان اور جی ٹوینٹی کے دیگر ممبران کے درمیان آپسی تعاون اور اشتراک پر تفصیل سے بات کی۔ ڈاکٹر محمد ناصر، شعبہئ دینیات نے اپنا مقالہ ”جی ٹوینٹی اور ماحولیات“ پر پیش کیا، جس میں انھوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ماحولیات پر جی ٹوینٹی کے فوکس کی کیا اہمیت ہے اور ہندوستانی تہذیب اور مذاہب ماحولیات کے تحفظ میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے اپنا مقالہ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا عالمی کردار جی ٹوینٹی ممالک کے پس منظر میں“ کے عنوان پر پیش کیا، جب کہ ڈاکٹر تنزیل احمد نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جی ٹونیٹی پر ہونے والی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ مجاہد اشرف، پبلی کیشن ڈویزن نے اپنے مقالہ میں اطلاعاتی ٹکنالوجی کے شعبے میں ہندوستان کے قائدانہ کردار اور جی 20 ممالک میں اس کی افادیت کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر محمد مختار نے بین الاقوامی معاملات کے حوالہ سے سرسید کے فکری امتیازات پر اپنے مقالہ میں تفصیل سے گفتگو کی۔ سعدیہ پروین دہلی یونیورسٹی نے سرسید کی سماجی اہمیت اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالی، جب کہ محمد نثار فیضی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نے ”ہندوستان کا عالمی معاشی ترقی میں کردار“ موضوع پر مقالہ پیش کیا۔
ان کے علاوہ جن موضوعات پر مختلف شعبوں کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے مقالے پیش کئے ان میں ’ہندوستان کی سافٹ پاور ڈپلومیسی‘(محمد ریحان، شعبہ انگریزی)، ’جی ٹوینٹی بلاک: تاریخ، اور موجودہ اہمیت‘ (سید عبدالرؤف، شعبہ سیاسات)، ’ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور جی ٹوینٹی‘ (طہور حسین، شعبہ سیاسیات)،’خواتین سے متعلق سیلف ہیلپ گروپ کی ترقی اور چیلنجز آزادی کے بعد(مس سنا، سینٹر فار ویمنس اسٹڈیز)، ہندوستان سافٹ پاور ڈپلومیسی کا ایک بڑا کردار(شیخ صادق اللہ حسین، شعبہئ ویسٹ ایشن اسٹڈیز)، اور دنیا پر سرسید احمد خاں کی سماجی اور تعلیمی خیالات کے اثرات(مسٹر یونس ٹی پی، شعبہ جدید ہندوستانی زبانیں) وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: G20 Book Exhibition اے ایم یو میں دو روزہ جی 20 کتب نمائش کا اہتمام
اس سیشن کی نظامت یاسر علی خاں، سرسید فیلو، سرسید اکیڈمی نے انجام دی۔ سیمنار کے پہلے اور دوسرے سیشن کے جملہ انتظامی امور کی ذمہ داری سید توقیر حسین اور طارق جمیل انصاری نے سنبھالی۔ سیشن کا اختتام ڈاکٹر سید حسین حیدر کے شکریہ کے ساتھ ہوا، جنہوں نے نہ صرف تمام مندوبین بلکہ سیمینار کو کامیاب بنانے میں تعاون ادا کرنے والے عملہ کے سبھی اراکین کا شکریہ ادا کیا۔