ETV Bharat / state

AMU Students Opinion on Hijab: حجاب کو کسی قانونی دائرے میں نہیں باندھنا چاہیے، اے ایم یو طلباء

کرناٹک حجاب تنازع اب ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس حوالے سے رہنماؤں کے مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں۔ یہ مسئلہ یوپی اسمبلی انتخابات 2022 میں بھی چھایا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبات نے بھی حجاب کو لے کر آواز اٹھائی ہے۔ آئیے جانتے ہیں ان طالبات نے کیا کہا۔

حجاب پر اے ایم یو طالبات کی رائے
حجاب پر اے ایم یو طالبات کی رائے
author img

By

Published : Feb 15, 2022, 4:10 PM IST

گزشتہ دنوں کرناٹک کے اُڈوپی کے ایک کالج میں باحجاب طالبات کو کالج کیمپس میں داخلے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد طالبات نے احتجاج کرتے ہوئے کیمپس میں داخلے کی اجازت مانگی لیکن انتظامیہ نے اجازت نہیں دی۔

اس کے بعد ریاست کے مختلف اضلاع میں بھی باحجاب طالبات کو اسکول و کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی اضلاع میں یہ پھیل گیا جس کے بعد طالبات اور ان کے سرپرستوں نے احتجاج کیا۔ فی الحال یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر بحث ہے۔

اس تعلق سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی حجاب کو لے کر مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اے ایم یو میں زیر تعلیم طالبات نے کہا کہ ہمارے بنیادی حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔ آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم جو چاہیں پہن سکتے ہیں پھر حجاب پہننے کی آزادی کیوں نہیں؟ اے ایم یو میں ڈریس کوڈ نہیں ہے اس لیے یہاں طالبات جینز بھی پہنتی ہیں اور حجاب پہن کر بھی آتی ہیں۔

حجاب پر اے ایم یو طالبات کی رائے

اے ایم یو کے طلباء نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دی جانی چاہئے کیونکہ سکھ برادری بھی ہر جگہ پگڑیاں پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ مذہبی، تعلیمی ادارہ ہو یا کوئی دوسری جگہ۔ پھر حجاب اتارنے کے لیے مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

آفرین نامی طالبہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ'اس حفاظت ہوتی ہے۔ گھونگھٹ میں بھی ایسا ہی کلچر ہے۔ آفرین کہتی ہیں کہ اگر کسی لڑکی سے زبردستی پردہ کرایا جا رہا ہے تو وہ ایسا کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔

اے ایم یو کی ایک دیگر طالبہ تنوی فاطمہ نے کہا کہ حجاب کو یوپی الیکشن سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ یہ ہمارے بنیادی حق میں شامل ہے کہ ہم اپنے مذہب پر عمل کر سکیں۔ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ حجاب کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ہو سکتے ہیں۔

تنوی کہتی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ ہونا چاہیے۔ تاہم طالبات کو اے ایم یو میں جو چاہیں پہننے کی آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ حجاب یا کسی بھی لباس کو کسی قانون کے دائرے میں نہیں باندھنا چاہیے۔

فاطمہ صبیحہ نامی طالبہ نے کہا کہ دنیا میں ہر کسی کو آزادی ہے اور وہ کچھ بھی پہن سکتا ہے۔ لیکن جب بات مسلمانوں کی ہو اور خواتین انہیں سر سے پاؤں تک ڈھانپ کر رکھنا چاہتی ہیں۔ تو سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں؟ آئین ہمیں اپنے مذہب کی ترویج اور اس پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے پھر مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اس بارے میں اے ایم یو کے پراکٹر پروفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ عدالت میں حجاب کیس کی سماعت جاری ہے۔ اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ پروفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ اے ایم یو میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ طلبہ اپنی مرضی سے ڈریس پہن کر یونیورسٹی آتے ہیں۔

گزشتہ دنوں کرناٹک کے اُڈوپی کے ایک کالج میں باحجاب طالبات کو کالج کیمپس میں داخلے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد طالبات نے احتجاج کرتے ہوئے کیمپس میں داخلے کی اجازت مانگی لیکن انتظامیہ نے اجازت نہیں دی۔

اس کے بعد ریاست کے مختلف اضلاع میں بھی باحجاب طالبات کو اسکول و کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی اضلاع میں یہ پھیل گیا جس کے بعد طالبات اور ان کے سرپرستوں نے احتجاج کیا۔ فی الحال یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر بحث ہے۔

اس تعلق سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی حجاب کو لے کر مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اے ایم یو میں زیر تعلیم طالبات نے کہا کہ ہمارے بنیادی حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔ آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم جو چاہیں پہن سکتے ہیں پھر حجاب پہننے کی آزادی کیوں نہیں؟ اے ایم یو میں ڈریس کوڈ نہیں ہے اس لیے یہاں طالبات جینز بھی پہنتی ہیں اور حجاب پہن کر بھی آتی ہیں۔

حجاب پر اے ایم یو طالبات کی رائے

اے ایم یو کے طلباء نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دی جانی چاہئے کیونکہ سکھ برادری بھی ہر جگہ پگڑیاں پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ مذہبی، تعلیمی ادارہ ہو یا کوئی دوسری جگہ۔ پھر حجاب اتارنے کے لیے مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

آفرین نامی طالبہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ'اس حفاظت ہوتی ہے۔ گھونگھٹ میں بھی ایسا ہی کلچر ہے۔ آفرین کہتی ہیں کہ اگر کسی لڑکی سے زبردستی پردہ کرایا جا رہا ہے تو وہ ایسا کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔

اے ایم یو کی ایک دیگر طالبہ تنوی فاطمہ نے کہا کہ حجاب کو یوپی الیکشن سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ یہ ہمارے بنیادی حق میں شامل ہے کہ ہم اپنے مذہب پر عمل کر سکیں۔ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ حجاب کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ہو سکتے ہیں۔

تنوی کہتی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ ہونا چاہیے۔ تاہم طالبات کو اے ایم یو میں جو چاہیں پہننے کی آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ حجاب یا کسی بھی لباس کو کسی قانون کے دائرے میں نہیں باندھنا چاہیے۔

فاطمہ صبیحہ نامی طالبہ نے کہا کہ دنیا میں ہر کسی کو آزادی ہے اور وہ کچھ بھی پہن سکتا ہے۔ لیکن جب بات مسلمانوں کی ہو اور خواتین انہیں سر سے پاؤں تک ڈھانپ کر رکھنا چاہتی ہیں۔ تو سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں؟ آئین ہمیں اپنے مذہب کی ترویج اور اس پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے پھر مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اس بارے میں اے ایم یو کے پراکٹر پروفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ عدالت میں حجاب کیس کی سماعت جاری ہے۔ اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ پروفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ اے ایم یو میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے۔ طلبہ اپنی مرضی سے ڈریس پہن کر یونیورسٹی آتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.