مرکزی حکومت کی کابینہ Central Government Cabinet نے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 برس سے 21 برس کرنے والے قانون کو منظوری دی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ قانون فروری میں ہونے والے پارلیمانی سیشن میں پیش کیا جائے گا۔ اس پر سماجی، ملی و فلاحی تنظیموں کے ذمہ داروں کی جانب سے متعدد طرح کے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے دارالقضا کمیٹی کے کنوینر Darul Qaza Committee Convener مفتی عتیق بستوی نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور مجوزہ قانون کی پرزور طریقے سے مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف اس مجوزہ قانون پر پہلے ہی آچکا ہے۔ اور ہم اس قانون کو سماج کے نقطۂ نظر سے غلط مانتے ہیں۔ اس سے سماج میں برائیاں پھیلیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں جب لڑکیاں اٹھارہ برس کی عمر میں ووٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ تمام تر اختیارات کی مجازی ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں شادی کرنے کے اختیار کو سلب کرنا غیر معقول ہے۔
انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک میں دارالقضا قائم کر رہا ہے اور تقریباً 100 سے زائد دارالقضا قائم ہو چکے ہیں اس میں شادی کے بعد آنے والی مشکلات کو حل کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے نکاح کے بعد گھریلو معاملات کے حوالے سے متعدد مسائل ہیں جو دارالقضا کے حوالے سے حل ہوتے ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے دارالقضاء میں نکاح کا معاملہ نہیں آتا ہے اس لیے شادی کے حوالے سے ابھی تک کوئی درخواست بھی نہیں آئی ہے لیکن اس سماج میں آنے والی برائیوں کے حوالے سے مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر نظر ثانی کریں اور اس کو تبدیل کریں۔ 18 برس کی عمر میں شادی کا اختیار لڑکیوں کو دینا صحیح تھا ان کے والدین اور سرپرست اس معاملے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں شادی کرنا کسی کی ذاتی رائے Getting Married is Someone's Personal Opinion ہے اور اس کی ذاتی رائے میں قانون کے ذریعہ مداخلت کرنا اس کی بنیادی حقوق کی حق تلفی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لابورڈ ہمیشہ مسلمانوں کو مذہب اسلام کے قانون کے تحت زندگی گزارنے کی تاکید کرتا ہے۔ مسلمان ہمیشہ اپنے مذہب کے قانون پر عمل کرنے اور زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لہٰذا شادی کے حوالے سے بھی مسلمانوں کا یہی موقف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر اس طرح کے قانون پاس ہوتے ہیں تو نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور لڑکیوں کی حق تلفی ہوگی لہٰذا اس طریقے کا قانون بنا کر 18 برس کے بعد ان کو شادی کرنے کا اختیار نہ دینا ان کی حق کی تلفی ہوگی۔