امسال 11 اگست کو اردو دنیا کے ممتاز شاعر راحت اندوری نے اس دنیائے فانی سے الوداع کہتے ہوئے ملک و بیرون ملک میں بسنے والے اپنے لاکھوں مداحوں کو غم زدہ کر دیا۔
برسوں تک اپنے بے باک انداز میں شاعری کو ایک نئی جہت فراہم کرنے والے راحت اندوری 11 اگست شام 4 بج کر 20 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، لیکن وہ اپنے پیچھے ان گنت یادیں چھوڑ گئے۔ عوام اور خواص راحت صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کو مختلف انداز میں آج یاد کر رہے ہیں۔
معروف شاعر طاہر فراز کل ہند اور عالمی مشاعروں میں شرکت کرکے اپنے شاندار کلام کے ذریعہ رامپور کی بہترین نمائندگی کرتے رہتے ہیں، نے ڈاکٹر راحت اندوری سے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ متعدد قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں ان کے ساتھ شرکت کی ہے۔ ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہا۔ ان کی قربت نصیب ہوئی۔ ان سے ہر موضوع پر باتیں کی اور ان کی قیمتی آرا سے مستفیض بھی ہوا۔
طاہر فراز نے کہا کہ راحت اندوری اور میں جب کسی بھی مشاعرے میں ایک ساتھ جاتے تھے تو ہم لوگ ایک ہی ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ ہم دونوں حقیقی بھائی کی طرح رہتے تھے۔ راحت اندوری سے تین برس چھوٹا ہوں لیکن ہماری گہری دوستی تھی اور ان کا احترام بھی دل میں ہمہ وقت رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی رامپور آتے تو میرے گھر ہی قیام کرتے تھے اور میں جب اندور جاتا تو راحت اندوری کے گھر ہی قیام کرتا تھا۔ ہم لوگ کئی کئی دن ایک دوسرے کے گھر ٹھہر جایا کرتے تھے۔
طاہر فراز نے کہا کہ راحت اندوری مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتے تھے۔ راحت اندوری نے ہمیشہ ظلم و جبر کے خلاف ببانگ دہل اپنے کلام کے تیر و نشتر چلائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حق و صداقت پر مبنی شاعری کے جرم میں راحت اندوری کو وہ اعزازات نہیں ملے جن کے وہ حقدار تھے۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راحت اندوری آخری مرتبہ 4 جنوری 2020 کو رامپور مہوتسو کے موقع پر کل ہند مشاعرے میں شرکت کرنے رامپور آئے اور وہ ان کی زندگی کا آخری کل ہند مشاعرہ ثابت ہوا۔
بہرحال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راحت اندوری نے اپنے منفرد انداز اور بے باک شاعری کی ان گنت داستانیں لکھ کر سامعین کے دلوں پر ایسا نقوش چھوڑا ہے جس کو بھلا پانا مشکل ہے۔