ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے دیوبند علاقہ میں جاری احتجاج قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارتی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
دیوبند کے بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہیں۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور روزی نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے حکومت نے مجبور کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لیے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کے مشترکہ ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طور پر یہ قانون واپس لے۔
فرحانہ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کر رہی ہو۔
انہوں نے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے۔
انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19 لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیر ملکی ہوگئے، جبکہ صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں۔ انہیں بھارتی ڈٹینشن سینٹر میں جا کر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا۔
انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنا رہی ہے جو قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کر رہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف کا تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم بھارتیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر بھارتی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔
انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم بھارتی خواتین آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں۔
خواتین نے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جس کے خلاف ہم آخر تک اپنی آواز بلند کریں گے۔ عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف بنے بینروں و پوسٹروں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی۔ اس موقع پر خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا۔
خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا ہے اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا، ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کاروائی پر سخت غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طور پر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصوروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔
بتا دیں کہ مظاہرہ کے دوران بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔ خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔