اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے بلریا گنج قصبے میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کررہی خواتین پر پولیس نے مبینہ طور پر لاٹھی چارج کرنے کے ساتھ گیس کے گولے داغے تھے جس میں متعدد خواتین زخمی بھی ہوئی تھیں لیکن پولیس نے خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے طاقت کے استعمال سے انکار کیا تھا۔
اس ضمن میں پولیس نے 35 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے 19 افرد کو گرفتار کیا تھا جس میں قصبے کے کافی اثر رکھنے والے معروف عالم دین مولانا طاہر مدنی بھی شامل ہیں۔ بعد میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے 12 فروری کو علاقے کا دورہ کیا تھا اور متأثرین کا حال چال معلوم کرتے ہوئے اس ضمن میں حقوق انسانی کمیشن کو خط لکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اترپردیش کانگریس اقلیتی سیل کے چیئرمین شہنواز عالم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ کانگریس جنرل سکریٹری نے بلریا گنج معاملے میں حقوق انسانی کمیشن کو 20 صفحات پر مبنی اپنے خط میں خاطی پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیس نے پرامن طریقے سے احتجاج کررہی خواتین پر بغیر کسی پیشگی انتباہ کے لاٹھیاں برسائیں اور آنسو گیس کے گولے داغے ہیں۔انہوں نے دعوی کیا ہے کہ جانچ کے مطالبہ کو خارج کر تے ہوئے پولیس کے دعوؤں کو من وعن قبول کرنا آئینی عمل پر حملہ ہے اور یوگی حکومت ایسا لگاتا رکررہی ہے۔
شہنواز نے بتایا کہ پرینکا واڈرا کے خط کے ساتھ ایک ویڈیو بھی منسلک کیا گیا ہے جس میں خاتون کوتوال گیانو پریا اور ایس ایچ او بلریا گنج منوج سنگھ کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔پرینکا نے اپنے خط میں مولانا طاہر مدنی کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ امن وسماجی ہم آہنگی کی بات کرنے والے مولانا طاہر مدنی کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا منظم کرائم کی تازہ مثال ہے۔
اپنے خط میں پرینکا واڈرا نے شدید طورسے زخمی سروری بانو کی میڈیکل رپورٹ اور عنابیہ ایمان(06) کا بھی ذکر کیا ہے جو پولیس کاروائی کی وجہ سے اس قد ر خائف تھی کہ کئی دنوں تک سو بھی نہیں پائی۔حقوق انسانی کمیشن کے نام اپنے 12 نکاتی خط میں پرینکا نے بلریا گنج دورے کے دوران خواتین کی جانب سے پولیس اہلکار پر خواتین کو گالیاں دینے،جنسی زیادتی اور برقعہ پھاڑ دینے کی دھمکی دینے کے لگائے گئے الزامات کا بھی ذکر کیا ہے۔