بریلی کا حجیاپور علاقہ ایک انوکھی ماں کی تکلیف اور درد کا گواہ ہے۔ ستارہ بیگم نامی خاتون بھارتی ہونے کے باوجود مُلک میں پردیسی کی طرح ہیں، لیکن دو دشمن مُلک بھارت اور پاکستان سمٹ کر ستارہ بیگم کے آنچل میں سما گئے ہیں۔
دراصل ستارہ بیگم کے شوہر شبیر احمد اپنے والدین کے ساتھ سنہ 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ وطن کی یاد ستانے لگی تو بیس برس تک پاکستان میں رہنے کے بعد اپنے تین بچوں کے ساتھ بھارت واپس لوٹ آئے۔
شبیر احمد بریلی کے نرکُلا گنج علاقے میں رہائش اختیار کی اپنے خاندان کے بقیہ لوگوں کے ساتھ کام کاج کرنے لگے. لیکن پاکستان سے واپسی اور وطن کے تئیں اپنی محبت کی اُنہیں بڑی قیمت چکانی پڑی۔
شبیر احمد نے سنہ 1968 سے لیکر سنہ 2015 تک بریلی سے دہلی اور لکھنؤ تک بھارتی شہریت حاصل کرنے کی انتھک کوششیں کیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اس درمیان پاکستانی شہری ہونے کا داغ ہونے کی وجہ سے اُنہیں دو مرتبہ جیل میں بھی رہنا پڑا۔ آخرکار سنہ 2015 میں 90 برس کی عمر میں بھارتی شہری ہونے کی حسرت لیے وہ دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
شبیر احمد کے انتقال کے بعد ان کی 85 برس کی بیوی ستارہ بیگم، اپنے بیٹے پرویز اور بیٹیاں نسرین اور پروین کو لیے اب تک اسی سہارے میں جی رہی ہیں کہ انہیں شہریت ملے گی۔
ستارہ بیگم کے گھر کا حال کچھ اس طرح سے ہے۔ ان کے بیٹے پرویز پاکستانی ہے تو بیوی اور بچے بھارتی ہیں۔اسکے علاوہ بیٹیاں نسرین اور پروین پاکستانی ہیں تو اُنکے شوہر اور بچے بھارتی ہیں۔ اسکے علاوہ بزرگ خاتون ستارہ بیگم کے باقی سات بچے بھی بھارتی ہیں۔
ان کے تینوں بچے پرویز، نسرین اور پروین بھی نہ جانے کتنی مرتبہ کاغزی کارروائی پوری کر چکے ہیں، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔
ہند و پاک کی سرحد کی طرح ستارہ بیگم کا خاندان بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اُنکے دس میں سے تین بچوں کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ، پین کارڈ، راشن کارڈ، بینک پاس بُک سمیت کوئی دستاویز نہیں ہے، جسکی وجہ سے اُنہیں کسی سرکاری اسکیم کا فائدہ نہیں مل پاتا ہے۔
جبکہ اُسی ماں کے باقی سات بچوں کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ، پین کارڈ، راشن کارڈ، بینک پاس بُک سمیت تمام ضروری دستاویز موجود ہیں۔
سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ محلے کے معمولی تنازع میں بھی لوگ پرویز کو پاکستانی ایجنٹ کہ کر پکارتے ہیں، جو کسی گندی گالی سے کم نہیں ہے۔