ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے منہاج الرحمان نے بتایا کہ اس رمضان ہم لوگ اتنی عبادت نہیں کر سکیں، جتنا سابقہ سالوں کے رمضان میں کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہم لوگ ظہر کی نماز ادا کرنے جاتے تھے۔ اس کے بعد وہیں قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور کچھ دیر آرام کر کے عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد افطار کے لئے ہی گھروں کو جاتے تھے۔
منہاج الرحمان نے کہا کہ اس بار لاک ڈاؤن کی مجبوری ہے، جس وجہ سے مساجد کا رخ نہیں کر پائیں، جس کا ہمیں بڑا ملال ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک عید کا معاملہ ہے تو گھر کے بچے پوچھتے ہیں کہ ہمارے لئے نئے کپڑے کب آئیں گے؟ ہم انہیں کیا جواب دیں کہ اس بار ہم خاموشی کے ساتھ عید منا رہے ہیں۔ اقبال احمد نے کہا کہ امسال رمضان اختتام پذیر کو پہنچا لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ نہ وہ سرگرمیاں رہیں اور نہ ہی عبادات میں وہ لذت ملی۔ گھر میں ہی نماز اور قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔
رمضان المبارک ایسا ماہ ہے، جس میں رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ خواتین گھروں میں اور مرد حضرات مساجد میں خوب خوب عبادت کرتے ہیں لیکن اس بار مسلمانوں کی حسرت ادھوری رہ جائے گی۔
رمضان کی تیاری مسلمان پہلے سے ہی شروع کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ مساجد میں صاف صفائی بھی ہو جایا کرتی تھی لیکن اس بار ہر جانب خاموشی طاری ہے۔
رمضان المبارک ایسا ماہ ہے، جس میں رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ خواتین گھروں میں اور مرد حضرات مساجد میں خوب خوب عبادت کرتے ہیں لیکن اس بار مسلمانوں کی حسرت ادھوری رہ جائے گی۔