سینئر اردو صحافی حفیظ نعمانی نے کچھ روز قبل 90 برس کی طویل عمر میں انتقال کرگئے۔
حفیظ نعمانی کا نام اردو صحافت کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ مختلف اخبارات و رسائل میں ایک زمانے سے لکھتے ہوئے اپنی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
لکھنؤ کے کیفی اعظمی ایڈیٹوریم میں مرحوم حفیظ نعمانی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ مشہور شاعر مخمور کاکوروی نے اس انداز میں مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا،
جہان فانی سے لو آج ہوگیا رخصت، بلندپایہ صحافی حفیظ نعمانی۔
کبھی نہ جس نے کیا مصلحت سمجھوتا، وہ تھا قلم کا سپاہی حفیظ نعمانی۔
حفیظ نعمانی کے دوست پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ سچائی کے معاملے پر حفیظ نعمانی نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا تھا۔
حفیظ نعمانی ایسے شخص تھے جو ہر کسی کے مشکلات اور پریشانی کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے آخری دنوں میں ایسا کرتے تھے بلکہ 1954 سے وہ لگاتار دوسروں کے لیے مدد کرتے رہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اسی کام پر لگے رہے۔
علی گڑھ مسلم اقلیتی کردار کی تحریک کے دوران 'ندائےملت' کا مسلم یونیورسٹی نمبر شائع کرنے کی پاداش میں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔
حفیظ نعمانی کو بے باکانہ انداز میں لکھنے کی پاداش میں جیل کی چہار دیواری میں زندگی کا کچھ عرصہ گزارنا پڑا۔
وہ ایک بہت اہم خاندان کے فرد تھے، بڑے عالم دین تھے، ایماندار شخص، انسان دوست تھے۔