نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے حکم پر سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین ملی۔ اترپردیش حکومت نے بورڈ کو ایودھیا سے دور دھنی پور گاؤں میں زمین مہیا کرا دی۔
دہلی کی دو بہنوں نے اس زمین پر اپنا مالکانہ حق بتاتے ہوئے ہائی کورٹ میں درخواست دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد فیض آباد میں رہتے تھے اور یہ زمین ان کے آباؤ اجداد کی ہے۔
وہیں ضلع انتظامیہ نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ دھنی پور کی مسجد معاملے میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ اس تنازع کا تعلق دھنی پور سے متصل گاؤں شیخ پور جعفر سے ہے۔'
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے دونوں بہنوں کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے اور جسٹس منیش کمار کی دو رکنی بنچ نے درخواست مسترد کر دیا ہے۔
اترپردیش حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رمیش کمار نے درخواست کی مخالفت کی تھی۔
اُنہوں نے کورٹ کو بتایا کہ 'دھنی پور کی مسجد معاملے میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ اس تنازع کا تعلق دھنی پور سے متصل گاؤں شیخ پور جعفر سے ہے۔'
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ دونوں بہنوں کی عرضی غلط حقائق پر مبنی ہے لہٰذا درخواست کو خارج کیا جائے۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل ایچ جی ایس پریہار نے اپنی غلطی مانتے ہوئے کورٹ سے درخواست واپس لینے کی مانگ کی۔