ETV Bharat / state

AMU Department of Urdu یوم سرسید کی مناسبت سے شعبہ اردو، اے ایم یو میں تقریب کا انعقاد

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 16, 2023, 7:16 PM IST

اے ایم یو کی بزم شہریار کے تحت منعقدہ ایک پروگرام میں ممتاز فکشن رائٹر اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے یوم سرسید کی مناسبت کہاکہ ”ماضی شناسی مستقبل کے تعین کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ ماضی شناسی کے بغیر ہم اپنے مستقبل کا لائحہ عمل مکمل طور پر تیار نہیں کر سکتے“۔ Sir Syed Day

AMU Department of Urdu
یوم سرسید کی مناسبت سے شعبہ اردو، اے ایم یو میں تقریب کا انعقاد

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بزم شہریار کے تحت منعقدہ ایک پروگرام میں، ممتاز فکشن رائٹر اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے یوم سرسید کی مناسبت سے منعقد تقریب میں اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید کے حوالہ سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ سرسید ایک عہد ساز شخصیت تھے، لیکن انہوں نے عہد ساز بننے کے لیے کیا کیا، پہلے اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ سرسید سب سے پہلے عہد شکن بنے، انہوں نے ماضی کو توڑا، کھنگالا اور پھر نئے عہد کی تعمیر کی۔ سرسید نے قوم کی تعلیم و ترقی کا جو بیڑا اٹھایا، اس نے ایک رجحان کی شکل اختیار کر لی اور آج جگہ جگہ جو تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں وہ سرسید کے اسی عمل کا نتیجہ ہیں۔

پروفیسر چھتاری نے کہا کہ سرسید نے تربیت پر بہت زور دیا ہے۔ سرسید کا خیال تھا کہ تربیت اس نہج پر ہونی چاہیے کہ کسی کو ٹوکنے کی ضرورت نہ پیش آئے، کیونکہ ٹوکنے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ماحول اور فضا ایسی بنائی جانی چاہیے کہ سماج خود بخود مثبت اقدار کی راہ پر گامزن ہو۔ سرسید نے جو مضامین لکھے ہیں یا ترجمہ کیے ہیں، ان کی روح تک پہنچنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے تاکہ سرسید نے وہ مضامین کیوں لکھے، کن حالات میں لکھے اور ان سے کس طرح کے مقاصدکا حصول مطلوب تھا۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر قمر الہدی فریدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سپردگی کا جذبہ ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ جب ہم کسی توانا شخص کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، تو پھر ہماری رفتار و ترقی کا ضامن وہ شخص ہوتا ہے، جس کا ہاتھ ہم تھامتے ہیں۔ سرسید نے یہ سبق دیا تھا کہ حوصلہ اور عزم سب کے پاس ہوتا ہے لیکن سب سے پہلے قدم آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی مقصد کو حاصل کرنے کا عزم کرکے قدم آگے بڑھائیں گے تو کائنات کی ساری قوتیں ہمارا ساتھ دینے لگیں گی۔ سرسید کے کارناموں کا ایک منشا یہ بھی ہے کہ ہم بھی اس کارنامہ کو انجام دینے والے بن جائیں۔
سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ بزم شہریار کے تحت اس پروگرام کا انعقاد ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہمارے اساتذہ اور طلبہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر یہاں سے فارغ ہونے کے بعد طلبا اپنے اپنے علاقوں میں علم کی، ادب کی اور تہذیب کی شمع روشن کرتے ہیں۔
پروگرام کے کو آرڈینٹر ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام شعبہ اردو کی دیرینہ روایات کا حصہ ہے جس میں طلباء، ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کی نمائندگی ہوتی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد حنیف خان، استاد شعبہ اردو، ویمنس کالج نے ’تعلیم نسواں کے متعلق سرسید کا موقف‘ موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ بی اے اور ایم اے کے طالب علموں نے بھی اپنے مضامین اور مقالات پیش کیے، جن میں محمد معراج الدین نے ’سرسید ایک تعارف‘، محمد یاسر نے ’سرسید ایک عہد ساز شخصیت‘، محمد عارش نے ’سرسید اور حب رسول‘، سید اکرام الٰہی نے ’سرسید:قومی ترقی اور معاشرتی اصلاح کا تصور‘ موضوع پر اپنے مضامین اور مقالات پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں:

احمد علی نے سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کے حوالہ سے تقریر کی اور وحید الزماں نے افتخار راغب کی نظم ’سرسید‘ سنائی۔ سرسید کی ایک فارسی نعت محمد صبور نے سنائی اور اس نعت کا منظوم ترجمہ ایم اے کے طالب علم نوجوان شاعر اریب عثمانی نے کیا۔ محمد معارف ریان نے علامہ اقبال کی مشہور نظم ’طلبہ علی گڑھ کالج کے نام‘ مترنم آواز میں پڑھی۔
پروگرام میں خصوصی طور پر اطلاقی ریاضی شعبہ کے سابق سربراہ پروفیسر حکیم، سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی کے علاوہ شعبہ کے جملہ اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبا شریک ہوئے۔ آخر میں ڈاکٹر امتیاز احمد نے اظہار تشکر کیا۔

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بزم شہریار کے تحت منعقدہ ایک پروگرام میں، ممتاز فکشن رائٹر اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے یوم سرسید کی مناسبت سے منعقد تقریب میں اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید کے حوالہ سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ سرسید ایک عہد ساز شخصیت تھے، لیکن انہوں نے عہد ساز بننے کے لیے کیا کیا، پہلے اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ سرسید سب سے پہلے عہد شکن بنے، انہوں نے ماضی کو توڑا، کھنگالا اور پھر نئے عہد کی تعمیر کی۔ سرسید نے قوم کی تعلیم و ترقی کا جو بیڑا اٹھایا، اس نے ایک رجحان کی شکل اختیار کر لی اور آج جگہ جگہ جو تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں وہ سرسید کے اسی عمل کا نتیجہ ہیں۔

پروفیسر چھتاری نے کہا کہ سرسید نے تربیت پر بہت زور دیا ہے۔ سرسید کا خیال تھا کہ تربیت اس نہج پر ہونی چاہیے کہ کسی کو ٹوکنے کی ضرورت نہ پیش آئے، کیونکہ ٹوکنے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ماحول اور فضا ایسی بنائی جانی چاہیے کہ سماج خود بخود مثبت اقدار کی راہ پر گامزن ہو۔ سرسید نے جو مضامین لکھے ہیں یا ترجمہ کیے ہیں، ان کی روح تک پہنچنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے تاکہ سرسید نے وہ مضامین کیوں لکھے، کن حالات میں لکھے اور ان سے کس طرح کے مقاصدکا حصول مطلوب تھا۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر قمر الہدی فریدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سپردگی کا جذبہ ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ جب ہم کسی توانا شخص کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، تو پھر ہماری رفتار و ترقی کا ضامن وہ شخص ہوتا ہے، جس کا ہاتھ ہم تھامتے ہیں۔ سرسید نے یہ سبق دیا تھا کہ حوصلہ اور عزم سب کے پاس ہوتا ہے لیکن سب سے پہلے قدم آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی مقصد کو حاصل کرنے کا عزم کرکے قدم آگے بڑھائیں گے تو کائنات کی ساری قوتیں ہمارا ساتھ دینے لگیں گی۔ سرسید کے کارناموں کا ایک منشا یہ بھی ہے کہ ہم بھی اس کارنامہ کو انجام دینے والے بن جائیں۔
سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ بزم شہریار کے تحت اس پروگرام کا انعقاد ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہمارے اساتذہ اور طلبہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر یہاں سے فارغ ہونے کے بعد طلبا اپنے اپنے علاقوں میں علم کی، ادب کی اور تہذیب کی شمع روشن کرتے ہیں۔
پروگرام کے کو آرڈینٹر ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام شعبہ اردو کی دیرینہ روایات کا حصہ ہے جس میں طلباء، ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کی نمائندگی ہوتی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد حنیف خان، استاد شعبہ اردو، ویمنس کالج نے ’تعلیم نسواں کے متعلق سرسید کا موقف‘ موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ بی اے اور ایم اے کے طالب علموں نے بھی اپنے مضامین اور مقالات پیش کیے، جن میں محمد معراج الدین نے ’سرسید ایک تعارف‘، محمد یاسر نے ’سرسید ایک عہد ساز شخصیت‘، محمد عارش نے ’سرسید اور حب رسول‘، سید اکرام الٰہی نے ’سرسید:قومی ترقی اور معاشرتی اصلاح کا تصور‘ موضوع پر اپنے مضامین اور مقالات پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں:

احمد علی نے سرسید کی ہمہ جہت شخصیت کے حوالہ سے تقریر کی اور وحید الزماں نے افتخار راغب کی نظم ’سرسید‘ سنائی۔ سرسید کی ایک فارسی نعت محمد صبور نے سنائی اور اس نعت کا منظوم ترجمہ ایم اے کے طالب علم نوجوان شاعر اریب عثمانی نے کیا۔ محمد معارف ریان نے علامہ اقبال کی مشہور نظم ’طلبہ علی گڑھ کالج کے نام‘ مترنم آواز میں پڑھی۔
پروگرام میں خصوصی طور پر اطلاقی ریاضی شعبہ کے سابق سربراہ پروفیسر حکیم، سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی کے علاوہ شعبہ کے جملہ اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبا شریک ہوئے۔ آخر میں ڈاکٹر امتیاز احمد نے اظہار تشکر کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.