سال 2022 اردو صحافت کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافت کا باقاعدہ آغاز اٹھارہویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ہوا۔ کلکتہ سے اردو کا پہلا ہفتہ وار اخبار جام جہاں نما مئی 1822 ء کو جاری ہوا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو صحافت نے آج دو سو برس مکمل کر لئے ہیں۔ اردو صحافت کے سفر کو دو سو سال مکمل کرنے میں کافی نشیب وفراز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انیسویں صدی یعنی 1822 ء سے 1899ء تک کم و بیش پانچ سو اخبارات و رسائل ہندوستان میں شائع ہونے لگے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ایسے اخبارات اپنے پورے عروج پر نظر آتے ہیں جو انیسویں صدی میں جاری ہوئے تھے ۔ ان میں "وکیل"، "صلح کل" اور "پیسہ" اخبار ہیں۔ مولانا حسرت موہانی نے 1903ء میں ہی "اردوئے معلی“ جاری کیا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں مولانا ابوالکلام نے کلکتہ سے الہلال“ جاری کیا۔ 'اردو صحافت : تجزیاتی و لسانیاتی ڈسکورس' کا رسمِ اجراء میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر عقیل احمد (ڈائریکٹر قومی فروغ برائے اردو زبان) نے شرکت کرتے ہوئے کہا اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر بھارت کی شاید ہی کوئی اسی یونیورسٹی ہوگی جہاں اردو صحافت کے حوالے سے کسی تقریب کا انعقاد نہ کیا گیا ہو۔
عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات کے زیر اہتمام اردو صحافت پر کتاب کا اجراء قابل تعریف ہے اور اس کتاب سے ملک کے تمام اردو صحافت کے طلباء مستفید ہوئیں گے۔ممتاز اسکالر پروفیسر سید محمد اشرف نے اردو صحافت سے متعلق بتایا بانی درسگاہ سرسید احمد خان جدید اردو صحافت کے بانی ہے کیونکہ اردو صحافت کی ابتداء کے بعد سر سید احمد کے نکالے ہوئے رسالے تہذیب الاخلاق، انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور ان کے مضامین پر اگر غور کیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ سر سید کی صحافت اردو صحافت کی جدت کی بانی ہے جس کو اب اسکالر بھی تسلیم کرتے ہیں۔
'اردو صحافت : تجزیاتی و لسانیاتی ڈسکورس' کا رسمِ اجراء اے ایم یو آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں عمل میں آیا جس میں فیکلٹی کے ڈین، صدر شعبہ اردو، پرو وائس چانسلر پروفیسر گلریز سمیت خاصی تعداد میں طلباء اور اساتذہ نے شرکت کی۔ کتاب کو پروفیسر جہانگیر وارسی اور صباح الدین احمد نے مرتب کی ہے جو 360 صفاحت پر مشتمل ہے۔