تاریخی شہر میرٹھ میں جنگ آزادی کے دوران جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کے مجسمے کو لے کر اب سیاست شروع ہوگئی ہے۔
میرٹھ کے نائب شہر قاضی زین الراشدین نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی جنگ آزادی میں سبھی مذاہب کے لوگوں نے شرکت کر اپنی قربانیاں پیش کی ہیں، تو فقط اکثریتی فرقہ کے مجاہدین آزادی کے مجسمے کیوں نصب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ علماء کرام نے انگریزوں کے مظالم کو برداشت کیے ہیں ایسے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا سراسر غلط ہے
انہوں نے کہا کہ 1857 کی غدر میں مسلمان مجاہدین آزادی کی تعداد اکثریتی فرقہ کے مجاہدین آزادی سے زیادہ تھی جن کے نام آج بھی شہید اسمارک پر لکھے ہوئے ہیں تو پھر صرف اکثریتی فرقہ کے مجسمے کیوں نصب کیے جائیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ یہاں مسلم و سکھ طبقہ کے مجاہدین آزادی کے بھی مجسمے نصب کیے جائیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور وہ وزیراعلی سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ کسی خاص مذہب پر توجہ نہ دے کر شہید اسمارک میں سبھی مذاہب کے ماننے والوں شہیدوں کے مجسمے نصب کیے جائیں۔
شہید اسمارک میں میرٹھ کے کینٹ حلقہ اسمبلی سے رکن اسمبلی ستہ پرکاش اگروال نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ میرٹھ کے شہید اسمارک میں 150 نشستوں پر مشتمل ایک بڑا ہال تعمیر کیا جائے جس میں یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر بہتر پروگرام کا نظم و نسق ہو اور اس میں تین مجاہدین آزادی کے مجسمے بھی نصب کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جن تین مجاہدین آزادی کے نام مجسموں کے لیے تجویز کیا گیا ہے ان میں منگل پانڈے، دھرم سنگھ کوتوال اور ماتا سنگھ بالمیکی کے نام شامل ہیں۔