رامپور کی رفعت کالونی میں رہنے والے اخلاق احمد کی بڑی بیٹی تہمینہ خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کو رفتار دینے کے خاطر سول لائنس علاقے میں واقع سٹی ہسپتال میں تقریباً 10 برس قبل بطور نرس ملازمت اختیار کی اور خاتون ڈاکٹر مکتا سنگھل کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ تہمینہ کے والد کے مطابق ڈاکٹر مکتا سنگھل کی لاپرواہی نے تہمینہ کی جان لے لی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر کو معلوم تھا کہ نرس کے دونوں گردے خراب ہوچکے ہیں لیکن اصلیت نہ بتا کر وہ صرف اسے درد رفع کرنےکی دوا دیتی رہیں۔
وہیں اس معاملے کو جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ضلع کے چیف میڈیکل افسر کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہ معاملے کی تحقیات شروع کر دی گئی ہے۔
دراصل تہمینہ کے گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے اس کو گذشتہ تین برسوں سے سینے میں درد کی شکایت تھی۔ لیکن جب وہ اپنی ڈاکٹر مکتا سنگھل سے اس کی شکایت کرتیں تو وہ انہیں درد کُش دوائیاں دے دیا کرتی تھیں۔
درد برداشت سے باہر ہونے پر تہمینہ نے الٹراساؤنڈ کے لئے کہا تو ڈاکٹر مکتا سنگھل نے اس کا الٹراساؤنڈ تو کر لیا لیکن حقیقت پر پردہ ڈالتے ہوئے فرضی رپورٹ لکھ کر تہمینہ کو تھما دی کہ سب کچھ درست ہے۔
تہمینہ کی حالت بدستور بگڑتی دیکھ کر اس کے والدین نے جب کسی دیگر ہسپتال میں اس کا الٹراساؤنڈ کرایا تو حقیقت سن کر ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی، کیوں کہ تہمینہ کے گردے تقریباً 80 فیصد ناکام ہو چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے فوری دہلی جاکر کئی بڑے ہسپتالوں میں علاج کروایا لیکن گردے مکمل طور پر ناکام ہونے کی وجہ سے تہمینہ نہیں بچ سکیں۔
کیوں چھپاتی رہی ڈاکٹر مکتا سنگھل تہمینہ کے مرض کی حقیقت؟ کیوں دیتی رہی صرف پین کلر؟ اس متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے تہمینہ کے والد اخلاق احمد سے بات کی ، جس میں انہوں نے کہا کہ پہلے وہ ڈاکٹر مکتا سنگھل پر یقین کرتے تھے لیکن وہ ایسا کر گزریں گی انہیں ایسا نہیں لگتا تھا لیکن معاملہ سامنے آنے کے بعد ان کا گمان غلط ثابت ہوا۔ انہوں نے ڈاکٹر مکتا سنگھل پر کئی سنگین الزامات بھی عائد کیے۔