سوشل میڈیا پر ان دنوں کویت حکومت کے لاء افسر کا ایک خط بہت تیزی سے گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ سے یہ گزارش کی تھی کہ اگر مسلم پرسنل لا بورڈ اجازت دے تو بابری مسجد کے مقدمہ کو وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جا سکتے ہیں، جس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے انہیں جواب دیا جا چکا ہے۔
کانپور میں انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن محمد سلیمان نے اس پر مزید وضاحت کی ہے۔
مزید پڑھیے: بابری مسجد کیس: 'سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، انصاف نہیں کیا'
بابری مسجد مقدمہ کے تعلق سے محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے مقدمے میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ پیروی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی پیروی کا نتیجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اور اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کو کسی مندر کو مسمار کرکے نہیں بنایا گیا ہے، یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 1949 میں وہاں جو مورتیاں رکھی گئی تھیں یہ بھی غیر قانونی عمل تھا ایک بڑا جرم ہے اور 1992 میں مسجد کو شہید کیا گیا یہ بھی ایک سنگین جرم تسلیم کیا ہے۔ وہیں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 1949 تک مسجد میں نماز ادا ہوتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود کورٹ نے صحیح فیصلہ نہ کرتے ہوئے انہیں مجرموں کو زمین دے دی جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ ایسی صورت میں کویت حکومت کے لاء افسر کا یہ کہنا کہ بابری مسجد کی پیروی صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوئی ہے، یہ خط انہوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کو لکھا تھا جس کا جواب ان کی طرف سے دیا جا چکا ہے۔
محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے مسجد جب ایک بار بن جاتی ہے تو وہ تا قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے۔ کوئی بھی مسلمان اپنی ذاتی حیثیت سے اگر کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کا اپنا اختیار ہے۔
اس بیان کے بعد سے مسلمانوں میں ایک تشویش اور بے چینی بھی ہے ساتھ ہی بابری مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کی ایک امید بھی زندہ ہو گئی ہے۔