سماجی تنظیم "انڈین مسلم فار پیس" کی ایک مشاورتی میٹنگ 10 اکتوبر کو گومتی نگر واقع ہوٹل حیات ریجنسی میں ہوگی، جس میں ایودھیا تنازع کے تصفیہ کے لیے '10 نکاتی' فارمولے پر غور کیا جائے گا۔
اس میں خاص طور پر محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل والی 750 مساجد میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ اگر سپریم کورٹ اس کی اجازت دے دیتا ہے تو بابری مسجد سے زیادہ مسلمان ان مساجد میں نماز ادا کرسکیں گے۔ نیز جو مساجد مخدوش ہیں ان کی مرمت و تزئین کاری میں بھی آسانی ہو جائے گی۔ اس سے برادران وطن کے جذبات کا وقار بھی قائم رہے گا۔
دوسری جانب بابری مسجد مقدمات کی پیروی کر رہے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکیوٹیو کمیٹی کی میٹنگ بھی آئندہ 12 اکتوبر کو لکھنؤ کے ندوۃ العلماء میں ہوگی۔ میٹنگ کی صدارت بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کریں گے۔ میٹنگ میں ملک بھر سے بورڈ کی ایگزیکیوٹیوو کمیٹی کے ممبران کی شرکت متوقع ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ممتاز قانون داں و ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ اب ثالثی کی بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ 1992 کے بعد سے لگاتار بات چیت ہوتی آرہی ہے، جس میں مسلم فریق سے اس بات کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ رام مندر کا معاملہ دراصل کروڑوں ہندؤں کی آستھا کا معاملہ ہے۔ لہذا وہ اس معاملے میں اپنے موقف پر قائم ہے۔
جبکہ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے صحافیوں کے سامنے کہا تھا کہ بابری مسجد کا تنازع آپسی بات چیت کے ذریعہ ہی حل کرنا مناسب ہے کیونکہ اگر فیصلہ مسلم فریق کے حق میں آتا ہے تو ملک میں خون خرابہ ہوسکتا ہے اور ہم یہ گوارا نہیں۔
بھلے ہی بورڈ پہلے سے صاف کر چکا ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کرے گا، لیکن جس طرح سے بابری مسجد مسئلے کو لیکر سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اس مسئلے پر غور کر رہا ہے تاکہ نتیجہ آنے کے بعد کوئی معاملات سامنے نہ آئے۔