لکھنو:بھارت کی نئی پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا گیا جس میں سب سے پہلے لوک سبھا اور اس کے بعد راج سبھا سے اس بل کو واضح اکثریت ووٹوں سے پاس کیا گیا ہے اس قانون میں صاف طور پہ کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ انتخابات میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا گیا ہے جب کہ اسمبلی انتخابات میں خواتین کے حصہ داری 33 فیصد رہے گی اس بل پر ایک طرف جہاں خواتین طبقہ میں خوشی اور جوش و جذبہ دیکھا جا رہا ہے ۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے معروف سماجی کارکن طاہرہ حسین نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کا ہم استقبال کرتے ہیں اور ملک کے ادھی ابادی کو سیاست میں حصہ دینے کے لیے اس سے قبل سونیا گاندھی نے بھی کوشش کی تھی لیکن وہ کوشش ناکام رہی تھی لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے اس بل کو نئی پارلیمنٹ ہاؤس میں پاس کرایا جو ملک کے خواتین کے لیے ایک خوش ائند پہل تصور کیا جا رہا ہے۔
وہیں کانگرس پارٹی سے وابستہ صدف جعفر نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ پہل کہیں ان جملوں کی طرح نہ رہ جائے جس طریقے سے 15 لاکھ روپے یا پٹرول ڈیزل کی قیمت کم کرنے یا کالا دھن واپس لانے والا جملہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بل خواتین کے حق میں انتہائی درست ہے اس سے قبل بھی کانگرس پارٹی نے خواتین کی سیاست میں ریزرویشن کے لیے کئی کوششیں کی لیکن کانگرس پارٹی کے ساتھ واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے ان بل کو پاس نہیں کیا جا سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ٹھیک پارلیمنٹ انتخابات سے قبل اس طریقے سے بل لانا کہیں نہ کہیں ان کی نیت پر شکوک و شبہات جیسے سوال قائم کرتے ہیں اگر وزیراعظم کو اس طرح کی بل لانی تھی تو 2014 میں بھی لا سکتے تھے ۔ اب تک اس کا نفاذ بھی ہو جاتا۔
یہ بھی پڑھیں:Women Reservation Bill خواتین ریزرویشن بل راجیہ سبھا میں پیش
انہوں نے مزید کہا کہ اب بھارت میں مردم شماری ہوگی اور اس میں پھر یقینی بنایا جائے گا کہ خواتین کی تعداد کتنی ہے اس کے بعد اس بل کا نفاذ ہوگا۔ظاہر ہے کہ اس پوری کاروائی میں برسوں لگ جائیں گے لہذا وزیراعظم کو چاہیے کہ اس بل کا فوری طور پر نفاذ کریں اور گزشتہ مردم شماری کی اعداد و شمار کے مطابق ہی خواتین کی سیاست میں حصہ داری کو یقینی بنائیں۔