علیگڑھ: عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) وائس چانسلر نے یوم آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا آج ان شہیدان وطن کو یاد کرنے کا دن ہے جنہوں نے ملک و قوم کی آزادی اور اپنے فیصلے خود کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کارگزار وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ حب الوطنی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے اور اس طرح کے پروگرام ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ انھوں نے مشاعرے کے انعقاد کے لیے شعبہ اردو کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ میں اچھی شاعری، عمدہ مشاعرہ اور اچھے سامعین کی روایت رہی ہے، مجھے امید ہے کہ ایسے مشاعرے دوسرے شعبہ جات بھی منعقد کریں گے۔
اس سے قبل اپنے خیر مقدمی کلمات میں شعبہ اردو کے چیئر مین پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے اہل وطن کو یوم آزادی کی مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے آزادی کی جد وجہد پر اجمالی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے مذہب و ملت کے فرق کو مٹا کر یہ آزادی حاصل کی تھی جسے بچائے رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی اخوت ویگانگت میں مضمر ہے، جسے یہاں کے عوام نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک سے محبت کے ساتھ اس کی ترقی میں ہم نمایاں کردار ادا کریں۔ انہوں نے مشاعرے میں شریک بیرونی اور مقامی شعراء کا تعارف بھی کرایا۔
بے سکونی میں بھی تسکین کو پالیتے ہو
کون ہے جس کو تصور میں بسا لیتے ہو
(سراج اجملی)
داستاں جب تری کہی میں نے
ابتدا روشنی سے کی میں نے
(عادل رضا منصوری)
پیاس کے ذکر کو رکھتا ہوں جدا پانی سے
دیکھتے رہتے ہیں دریا مجھے حیرانی سے
(عقیل نعمانی)
کل جو اس جانب مرے جانے کی تیاری ہوئی
اندروں روشن ہوا باہر ضیاء باری ہوئی
(کوثر مظہری)
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
(معید رشیدی)
میں خود بھی جانتا ہوں نقش اول کے معائب
مگر یہ نقش اول نقش ثانی کے لیے ہے
(سرفراز خالد)
گرمی احساس کی شدت سے چپ سی لگ گئی
وقت کاسورج مری جادو بیانی لے گیا
(سلمی شاہین)
بس ایک شب کو تری چھت قبول کرلی ہے
یہ مت سمجھ کہ امامت قبول کرلی ہے
(سرور ساجد)
جب کچھ نہیں ملا اسے کھونے کے واسطے
جاگی ہے رات صبح کو سونے کے واسطے
(مہتاب حیدر نقوی)
چراغ لے کے نکلتے نہیں ہیں راہوں میں
سمجھ چکے ہیں ہواؤں کے سب اشارے لوگ
(شہاب الدین ثاقب)
وہ شہر بسا بھی تھا ہماری ہی بدولت
اس شہر تمنا کی تباہی بھی ہمیں تھے
(نسیم صدیقی)
خالد کا تو دریا کی گذرگاہ میں گھر ہے
سیلاب کو آنا ہے تو دروازہ کھلا ہے
(خالد محمود)
پروگرام کا اختتام ناظم مشاعرہ پروفیسر سید سراج الدین اجملی کے اظہارِ تشکر کے ساتھ ہوا۔