رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "صدقہ فطر فرض ہے تاکہ روزہ دار فضول اور نازیبا اور بری باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کو (کم از کم عید کے دن اچھا کھانا پینا) میسر آجائے، جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کیا تو وہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے۔"
لکھنؤ شہر قاضی مفتی ابوالعرفان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ شریعت نے امیر و غریب کے نام پر کوئی تفریق نہیں کیا۔ جو مسلمان صاحب نصاب ہیں، ان پر یہ فرض ہے کہ رمضان المبارک کے ماہ میں نماز عید کے پہلے صدقہ فطر ضرور ادا کریں۔
جب بھی صدقہ فطر کی بات آتی ہے تو علماء کرام ہمیشہ گندم دینے کی بات کرتے ہیں یا گندم کے برابر کی رقم دینے کہتے ہیں۔
اس پر مفتی ابوالعرفان نے بتایا کہ چونکہ بھارت میں گندم کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ تر لوگوں کی غذا گندم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صدقہ فطر میں گندم دینے کی بات کرتے ہیں۔
ان لوگوں کو پر صدقہ فطر فرض ہے۔جن کے پاس 52۰5 تولہ چاندی یا اس کے برابر کی رقم، 7۰5 تولہ سونا یا اسکے برابر کی رقم ہو، اس پر فطرہ فرض ہے۔
ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مال یا رقم سے صدقہ فطر ضرورت مندوں کو دیں۔ فطرہ کی مقدار۔ اگر کوئی گندم دینا چاہے تو ایک کلو 635 گرام یا اس کے برابر کی رقم یا آٹا، ستو بھی دیا جا سکتا ہے۔
اب اگر کوئی مسلمان گندم کے علاوہ چنا، مٹر، دال، کھجور، کشمش بطور فطرہ ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ گندم کے وزن کے برابر نہیں بلکہ گندم کے قیمت کے اعتبار سے فطرہ نکالیں۔
انہوں نے بتایا کہ کم سے کم ایک کلو 635 گرام گندم نکالنا فرض ہے، لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ دینا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
صدقہ فطر کے مستحق کون؟
مفتی ابوالعرفان فرنگی نے بتایا کہ سب سے زیادہ حقدار قریبی رشتہ دار ہیں۔ جیسے آپ کے بھائی یا ان کی اولاد، آپکی بہن یا انکی اولاد۔ اس کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کو بھی دیا جا سکتا ہے لیکن دادا-دادی، نانا-نانی، ماں-باپ اور اپنی اولاد کو صدقہ فطر نہیں دے سکتیں۔
اگر آپ کے رشتہ دار، خاندان میں کوئی مستحق نہیں ہیں، تو پھر جو پڑوسی غریب، مسکین، یاتیم، مسافر، محتاج، بے سہارا ہیں، وہ سب سے زیادہ آپ کے صدقہ فطر کے حقدار ہیں۔
کورونا وائرس کے سبب ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے لہذا سبھی کے کام بند ہیں۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی صاحب نصاب زیادہ رقم ادا کریں تو زیادہ مناسب ہے، لیکن ان پر ایسا کرنا فرض نہیں ہے۔
جب عید کی نماز نہیں ہوگی تو کس بات کی خریداری؟ یہ ماہ اللہ کی عبادت کرکے اسے راضی کرنے کا ہے۔