نواب احمد بنارسی شہر بنارس کے ان نوجوان شعرا میں سے تھے جن کے ذاتی اور گھریلو تعلقات بر صغیر ہند و پاک بیشتر شعرا سے تھے ۔
راحت اندوری۔شاعر جمالی ۔ منور رانا ۔اشہر اقبال۔ طاہر فراز ۔جوہر کانپور شبینہ ادیب ۔ جیسے نامر شخصیات بنارس یا مضافات میں کسی بھی مشاعرے میں شریک ہوتے تھے اور ان کا گذر بنارس سے ہوتا تھا وہ نواب کی میزبانی کا تقاضہ ضرور کرتے تھے ۔
نواب بھی دل کھول کر ان کی خاطر تواضع کرتے تھے.
نواب بنارسی کی شاعری کا سلسلہ شاعر جمالی کی شاگردی سے شروع ہوتا ہے ۔ حیرت کا مقام ہے کہ نواب اردو رسم الخط سے نا واقف ہوتے ہوئے بھی بہت ہی پختہ کار شاعر تھے ۔
جدید لب و لہجے میں ایسی ندرت کے ساتھ نئے مضامین نظم کرتے تھے کہ ہر خاص و عام بیک وقت داد دینے پر مجبور ہو جاتا تھا
نواب احمد 7 اکتوبر 1968کو بنارس کے صنعتی کاروباری علاقہ بڑی بازار جمال الدین پورہ میں پیدا ہوئے ۔
ادھر کچھ روز سے شوگر کے عارضہ کے علاوہ شدید بخار میں مبتلا تھے۔ان کو بنارس کے سہارا ہاسپٹل میں ایک ہفتہ قبل ایڈمٹ کرایا گیا تھا جہاں ان کی حالت مسلسل بگڑتی چلی گئی آج بعد نماز عصر ان کا انتقال ہو گیا۔
لواحقین میں چار بیٹے پانچ بیٹیاں اور ایک اہلیہ شامل ہیں.
نواب بنارسی کے کچھ منتخب اشعار ۔
دورے ترقی میں ہم نے کچھ لوگوں کو
تھالی پیٹ کے روگ بھگاتے دیکھا ہے
الو کے فرمان پہ بھوکے لوگوں کو
بیڑی پی کے بھوک بھگاتے دیکھا ہے
موسم فراقِ وصل کے کب کے چلے گئے
آنکھوں میں مانسون کی دستک ہوئی ہے آج
انسانیت کے منھ پہ طمانچہ ہے زور کا
ایک پھول سی جو بچی گٹر میں ملی ہے اج
دل ہوا مجبور کل اتنا کسی کے سامنے
غم سے میں نے دوستی کرلی خوشی کے سامنے
میں تیری یادوں کے تلوے چاٹتا ہوں رات و دن
جرم یہ تسلیم کرتا ہوں سبھی کے سامنے
درد کی اس ٹوکری کو کیوں لیے پھرتا ہے تو
دینے والا جو ہے اس کو رکھ اسی کے سامنے
روٹیوں کے سامنے بھوکوں کا مجرا دیکھیے
کس قدر لاچار ہیں وہ بھوک مری کے سامنے
میں بھی اب لفظوں کی موتی چن رہا ہوں رات و دن
کیا کروں مجبور ہے دل شاعری کے سامنے.
امن کا موسم ہمیشہ ہند میں قائم رہے.
میں یہ ونتی کر رہا ہوں رام جی کے سامنے
عدل اور انصاف کی امید قائم ہے تیری
وہ بھی اس نواب جیسے آدمی کے سامنے