'مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، رفی احمد قدوائی، مختار احمد انصاری اور دیگر ایسے نام ہے جن کا شمار نان کو آپریشن کے لیڈران میں ہوتا ہے اور پورے بھارت میں نان کوآپریشن موومنٹ اور خلافت تحریک کا ماحول بنا دیا تھا جس سے ایک زبردست جذبہ پیدا ہوا تھا نان کوآپریشن موومنٹ کو ماننے کے لیے۔'
ڈاکٹر شاہد نے مزید بتایا محمڈن اینگلو اورینٹل کالج نے اس زمانے میں مہاتما گاندھی کی کال کو لبیک کہتے ہوئے کالج کو چھوڑا کیوں کہ مہاتما گاندھی کی یہ کال تھی کہ جو قومی تعلیم ہے، اس میں حصہ لینا چاہیے اور انگریزوں کی تعلیم کا ہمیں بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اس کو مانتے ہوئے ایک بڑی تعداد نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو چھوڑا تھا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام علی گڑھ میں ہی عمل میں آیا۔
ڈاکٹر شاہد نے بتایا کہ یہاں میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب گاندھی جی نے کال دی نان کوآپریشن موومنٹ اور خلافت تحریک کو ماننے کے لیے تو علی گڑھ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن دوسری طرف بنارس ہندو یونیورسٹی اور پنڈت مدن موہن مالویہ جی نے بلکل سختی سے منع کر دیا۔
یہاں بنارس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے بنارس میں یہ لوگ داخل بھی نہیں ہو پائے لیکن دوسری طرف دیکھیے کہ آپ اے ایم یو میں ایک زبردست تحریک چلی اور ملک کی آزادی میں حصہ یہاں کے لوگوں نے لیا۔
ڈاکٹر شاہد نے بتایا بعد میں بھی جیسے جیسے آزادی کی تحریک آگے بڑھی اس میں علی گڑھ کے لوگوں نے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور بہت ساری نمایاں شخصیات کا نام لیا جا سکتا ہے ملک کی آزادی میں یہاں کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔