اس حوالے سے بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے پدم شری منظور احتشام کی رحلت پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ارود اور ہندی ادب کے علمبردار تھے ہندی زبان میں مسلمانوں کے مسائل کو بے باکانہ طریقے سے بلند کرنے والے منظور احتشام کی ناول سوکھا برگد مختلف زبانوں میں شائع ہوئی اور خوب پذیرائی ہوئی اس کے علاوہ متعدد ناولز و افسانے منظر پر آئے جو انتہائی مقبول ہوئے۔ پروفیسر آفاقی نے کہا کہ منظور احتشام بنیادی طور پر تخلیقی صلاحیت کے مالک تھے۔
انہوں نے اپنے والد کی ایماء پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کے شعبہ میں داخلہ لیا تھا لیکن ذہنی طور اس تعلیم سے مطمئن نہ رہے یہی وجہ ہے اس کورس کو نامکمل ہی چھوڑ گئے پھر دوا کے کاروبار سے لگ گئے لیکن اسے بھی کچھ دنوں بعد ترک کردیا اس کے بعد اپنی تخلیقی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور ہندی اردو زبان کے زبردست قلم کار ٹھہرے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی شخصیات کا جانا نہ صرف زبان و ادب کی سطح پر بڑا خسارہ ہے بلکہ بھارتی تہذیب و ثقافت کے لیے بھی اہم نقصان ہے۔
پروفیسر آفاقی نے بتایا کہ جب وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچر دینے آئے تھے اس وقت یہاں کے طلبا و اساتذہ نے ان کی علمی گفتگو سے خوب فائدہ حاصل کیا تھا۔ ہم سبھی ان کے لیے دعا گو ہیں کہ رب العزت ان کو غریق رحمت کرے۔' اس حوالے سے بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے پدم شری منظور احتشام کی رحلت پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ارود اور ہندی ادب کے علمبردار تھے ہندی زبان میں مسلمانوں کے مسائل کو بے باکانہ طریقے سے بلند کرنے والے منظور احتشام کی ناول سوکھا برگد مختلف زبانوں میں شائع ہوئی اور خوب پذیرائی ہوئی اس کے علاوہ متعدد ناولز و افسانے منظر پر آئے جو انتہائی مقبول ہوئے۔ پروفیسر آفاقی نے کہا کہ منظور احتشام بنیادی طور پر تخلیقی صلاحیت کے مالک تھے۔
انہوں نے اپنے والد کی ایماء پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کے شعبہ میں داخلہ لیا تھا لیکن ذہنی طور اس تعلیم سے مطمئن نہ رہے یہی وجہ ہے اس کورس کو نامکمل ہی چھوڑ گئے پھر دوا کے کاروبار سے لگ گئے لیکن اسے بھی کچھ دنوں بعد ترک کردیا اس کے بعد اپنی تخلیقی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور ہندی اردو زبان کے زبردست قلم کار ٹھہرے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی شخصیات کا جانا نہ صرف زبان و ادب کی سطح پر بڑا خسارہ ہے بلکہ بھارتی تہذیب و ثقافت کے لیے بھی اہم نقصان ہے۔
پروفیسر آفاقی نے بتایا کہ جب وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچر دینے آئے تھے اس وقت یہاں کے طلبا و اساتذہ نے ان کی علمی گفتگو سے خوب فائدہ حاصل کیا تھا۔ ہم سبھی ان کے لیے دعا گو ہیں کہ رب العزت ان کو غریق رحمت کرے۔'