اتر پردیش کے دارالحکومت شہر لکھنو نے پوری دنیا میں اپنی معتبر اور ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ ادب، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے اس شہر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
شاہان اودھ و نوابین لکھنو کی تعمیر کردہ اہم عمارتیں آج بھی اس سرزمین پر پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اور اپنی روشن ماضی کی کہانی خود بیان کر رہی ہیں۔
یہاں کا چھوٹا امام باڑہ بڑا امام باڑہ، پکچر گیلری، رومی دروازہ، شاہ نجف، گھنٹہ گھر فن تعمیر کا شاہکار ہیں، لیکن موجودہ دور میں حکومت اور حیسن آباد ٹرسٹ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ سبھی تاریخی عمارتیں اپنی خستہ حالی پر نم دیدہ ہیں۔
لکھنؤ کی شان رومی دروازے کے بیچ میں جہاں دراڈ آگئی ہے وہیں دیواریں خستہ حال ہیں، پکچر گیلری کی عمارت بھی خستہ حال ہیں، چاروں طرف کی دیوار کی اینٹیں زمین بوس ہو رہی ہیں، چھوٹے امام باڑہ کے اطراف و اکناف غیر قانونی قبضہ ہے، رومی دروازہ سے بڑی بڑی گاڑیاں گزر رہی ہیں لیکن حکومت اسے نظرانداز کرکے بیٹھی ہے۔
اس سلسلے میں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لکھنو کی آن و بان و شان اور نوابوں کی تعمیر کردہ بیش قیمتی عمارتیں حسین آباد ٹرسٹ اور محکمہ آثار قدیمہ کی لاپرواہی کی وجہ سے مسلسل خستہ حالی کے شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رومی دروازہ، بڑا امام باڑا ،چھوٹا امام باڑا، پکچر گیلری، شاہ نجف اور دیگر عبادت گاہیں اپنے وجود کے لیے موت و زیست سے لڑ رہی ہیں۔ یہ عمارتیں اب قوم کے ہاتھ میں نہیں ہیں، اس لیے قوم کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمارتیں نہ صرف اپنے دامن میں ایک قدیم تاریخ سمیٹے ہوئے ہیں۔ بلکہ لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی روشن مثال ہیں۔
مولانا یعقوب عباس نے ان عمارتوں کی خستہ حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ہم نے برسوں سے مہم چھیڑ رکھی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ بیدار نہیں ہورہی ہے، اور یہ تمام تاریخی عمارتیں دن بدن خستہ حال ہو رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:
وہیں معروف تاریخ دان میر جعفر عبداللہ نے بتایا کہ شاہان اودھ نے جب لکھنؤ کو دارالحکومت میں تبدیل کیا اس وقت یہاں متعدد امام باڑے، عبادت گاہیں اور عالیشان عمارتیں تعمیر کروائے۔ بعد ازیں حسین آباد ٹرسٹ قائم ہوا جس کے کئی متولی بنائے گئے، حسین آباد ٹرسٹ میں بدعنوانی کے معاملات سامنے آتے رہے، جس کے بعد کئی متولیان تبدیل ہوتے رہے اس دوران عمارتوں کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اور یہ عمارتیں بدحال ہوتی رہیں۔
اس کے بعد ان تاریخی عمارتوں کا چئیرمین لکھنو کے کمشنر کو بنایا گیا، بعد میں یہ عہدہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو سپرد کیا گیا لیکن آج بھی اس کی تزئین کاری و تحفظ کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے، ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں ہیں کہ ان عمارتوں پر خصوصی توجہ دیں اور اس کی تزئین کاری ہو ورنہ اندیشہ ہے کہ کچھ برسوں میں ان تمام تاریخی عمارتوں کے وجود پر بھی سوال کھڑے ہونے لگیں گے۔
واضح رہے کہ حسین آباد علاقہ تاریخی عمارتوں کا مرکز ہے یہاں پر غیر قانونی قبضہ میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے جو ان عمارتوں کی خوبصورتی اور تحفظ کے لیے خطرہ ہیں۔ چھوٹا امام باڑے کی جانب آخری دروازے سے متصل ہی پولیس چوکی بنادی گئی ہے جس سے گیٹ کی خوبصورتی اب اوجھل سی ہوگئی ہے۔