کہا جاتا ہے کہ حکیم لقمان نے چاندی کے ورق معجون و دواؤں میں استعمال کرنا شروع کیے تھے، اسی زمانے سے چاندی کے ورق کا استعمال متعدد غذا میں کیا جانے لگا۔ چاندی کے ورق کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ لکھنؤ کے نوابوں نے اس کو اپنا خاص غذا میں شامل کرلیا تھا۔ خاص کر یہاں کے رؤسا نے ادویات میں چاندی کے ورق کا آمیزہ بنا کر استعمال کرنے کی روایت کو عام کیا۔ نواب واجد علی چاندی کا امیزہ بناکر کھایا کرتے تھے۔موجودہ دور میں مٹھائی پان اور یونانی ادویات میں چاندی کا ورق استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لکھنؤ میں تقریباً 15 سو کاریگر ہوا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں اب یہ کاریگر فقط دو درجن سے بھی کم رہ گئے ہیں۔
لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت میں چاندی کے ورق کا استعمال عام ہونے کے بعد یہاں کے رؤسا، امرا اور نوابوں نے چاندی کے ورق کو متعدد کھانوں کے ساتھ استعمال کیا جس کے بعد لکھنؤ میں بڑے پیمانے پر چاندی کے ورق کے کاریگر جنم لیے۔ چوک، ٹکسال والی گلی اور حسین آباد چاندی کے ورق کے کاریگروں کا خاص مرکز رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں معمولی مزوردی ہونے کی وجہ سے کاریگروں کی قلت ہو گئی ہے۔ مشینوں نے کاریگروں کے کام سخت متاثر کیا ہے۔
ایک طویل عرصہ سے آٹو میشن کے تعلق سے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ مشینوں کے سبب بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اس سے قبل جہاں ایک طرف مشینوں کی وجہ سے لوگوں کی ہاتھ کی کاریگری متاثر ہوئی، وہیں دوسری طرف جدید ٹکنالوجی سے لیس ان مشینوں نے نئے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی دیے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پل بھر میں سینکڑوں لوگوں کا کام کرنے والی یہ مشنیں ہاتھ کاریگروں کے لیے مشکلات کی سبب بن رہی ہیں۔
چاندی کا ورق بنانے والے کاریگر ذوالفقار بتاتے ہیں کہ پورے دن میں صرف 2 سو کی مزدوری ہوتی ہے، موجودہ وقت میں مہنگائی کو دیکھتے ہوئے مزدوری انتہائی کم ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اس پیشہ کو نہیں سیکھایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ چالیس برس سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن موجودہ وقت میں کاریگروں کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے وہ کبھی نہیں رہا۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ کاریگروں کی آخری دور ہے ان کے ختم ہونے کے بعد ہاتھ سے چاندی کا ورق بنانے والا کوئی نہیں رہ جائے گا۔'
انہوں نے بتایا کہ مشین سے بننے والے چاندی کے ورق میں متعدد کیمیکلز شامل کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ہاتھ سے چاندی کا ورق بننے والا خالص ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ورق مہنگا ہوتا ہے اس لیے دکاندار اس جانب کم توجہ دیتے ہیں اور مشینوں سے بنے ہوئے چاندی کے ورق کو استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں'۔