اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ان میں بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف امام باڑہ، بھول بُھلیّاں وغیرہ سمیت کئی ایسی عمارتیں ہیں جہاں روزانہ کثیر تعداد میں ملک کے مختلف حصوں سے سیّاح سیر و تفریح کے لیے آتے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے یہ تمام مقامات بند پڑے ہیں۔
معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے بڑا امام باڑہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ ہم حُسین آباد ٹرسٹ کے چیئرمن (لکھنو کے ڈی ایم) کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں جس میں بڑے امام باڑہ اور چھوٹے امام باڑہ کو کھولنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
مولانا کلب جواد نے کہا کہ پہلی محرم سے لے کر عاشورہ تک بڑا امام باڑہ اور چھوٹا امام باڑہ میں میں مجلس، عزاداری اور ماتم کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور اس کی وجہ کورونا وائرس بتائی گئی تھی لیکن اب سیاحوں کے لیے امام بارگاہ کو کھولنے کا فیصلہ لیا گیا ہے جس سے ہمیں سخت اعتراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'جب سیاحوں کو سیر و تفریح کی اجازت مل سکتی ہے تو شیعہ مسلمانوں کو امام بارگاہ میں مجلس کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟
مولانا نے بتایا کہ 'یہ امام بارگاہ نواب آصف الدّولہ نے سیاحوں کے لیے تعمیر نہیں کروایا تھا بلکہ اس کا اصل مقصد حضرت امام حسینؓ کے غم میں مجلس اور ماتم کے لیے تعمیر کروایا گیا تھا۔
انہوں نے لکھنؤ کے ڈی ایم جو حُسین آباد ٹرسٹ کے چیئرمن بھی ہوتے ہیں، پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حُسین آباد ٹرسٹ کی آمدنی کتنی ہے اور اخراجات کتنے ہیں؟ اس کا 20 سالوں سے کوئی آڈٹ نہیں ہوا ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے۔
امام باڑہ شیعہ مسلمانوں کے لیے تعمیر کروایا گیا تھا لیکن انھیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ ٹرسٹ کے افسران کچھ ہی وقت میں کروڑوں روپے کی کمائی کر لیتے ہیں۔
مولانا کلب جواد نے واضح طور پر کہا کہ اگر 24 ستمبر سے امام بارگاہ سیاحوں کے لیے کھولا جاتا ہے تو ہم لوگ بھی بغیر اجازت امام بارگاہ میں مجلس کریں گے۔