لکھنوؑ: سماجوادی پارٹی کے سینیئر رہنما اعظم خان کو اشتعال انگیز تقریر معاملے میں ایم پی ایم ایل اے مجسٹریٹ عدالت نے تین برس کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ ہو گئی تھی لیکن گزشتہ دنوں اعظم خاں کو ایم پی ایم ایل اے سیشن عدالت نے راحت دیتے ہوئے انہیں اس کیس میں باعزت بری کر دیا ہے۔ اس دوران اعظم خان کے رام پور اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار آکاش سکسینہ کو کامیابی ملی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اعظم خان کی اسمبلی کی رکنیت بحال کی جائے گی یا نہیں؟۔ اس حوالے سے قانونی پہلو کیا ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے اس پورے موضوع پر اتر پردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر و ماہر قانون سید حیدر عباس رضوی سے بات چیت کی ہے۔ سید حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اعظم خاں کو اشتعال انگیز تقریر معاملے میں عدالت نے باعزت بری کیا ہے۔ یہ ان کے اور ان کے حامیوں کے لیے بہت بڑی راحت کی خبر ہے اور اعظم خان پر عدالت نے جو جرمانہ عائد کیا تھا اس کو بھی واپس لینے کا اختیار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون پر اعتماد اور بھروسہ رکھنے والوں کے لیے یہ پر سکون خبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اس معاملے پر فیصلہ ہے کہ جیسے ہی کسی بھی رکن اسمبلی کو دو سے زائد برس کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس کی رکنیت منسوخ ہو جائےگی لیکن اعظم خاں کا معاملہ اب مختلف ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعظم خان کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہیے، وہاں سے ان کو کوئی ہدایت ملے گی، جس کی روشنی میں وہ آگے قدم اٹھائیں گے۔
وہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ عدالت کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ ساری پابندیاں عائد ہو رہی تھی لیکن اب جب اعظم خان کو اسی معاملے میں بری کر دیا گیا ہے تو اگرچہ ان کی اسمبلی کی رکنیت بحال نہ ہو کیونکہ الیکشن کمیشن وہاں پر ضمنی انتخابات کراچکا ہے لیکن آئندہ الیکشن میں وہ حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں لے سکتے ہیں اس کے لئے ان کو عدالت جانا پڑے گا اور عدالت سے رہنمائی ملے گی۔ امید ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ واضح رہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اعظم خان نے نوکر شاہوں پر تبصرہ کیا تھا۔ اس تبصرہ پر عدالت نے انہیں تین برس کی سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد اعظم خان نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا لیکن عدالت عظمی نے نچلی عدالت میں ضابطہ کے کاروائی کرنے کو کہا تھا۔