لکھنو: لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں پر مضامین لکھنے والے سید حیدر عباس رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ منٹوں کرنل جون کالن سے اتنا متاثر تھے کہ ان کے لیے نے ایک ضمیمہ شائع کیا تھا اور ان کی خدمات کو یاد کیا تھا۔ لکھنو کے امین آباد میں واقع کرنل جون کالن کی لاٹ کی بلندی 60 فٹ تھی لیکن اب تقریبا 20 فٹ منہدم ہوچکا ہے جو رفتہ رفتہ وہ بھی ختم ہوجائے گا دلچسپ یہ ہے کہ یہ لاٹ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے جس کی حفاظت کی ذمہ دار آثار قدیمہ کی ہے لیکن وہاں پر اس قدر غیر قانونی قبضہ ہوچکا ہے مکانات تعمیر ہوچکے ہیں کی لاٹ کی تصویر بھی لینا مشکل ہے۔ اور محکمے کے لوگ نظر انداز کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کے قوانین و ضوابط میں صاف طور پہ واضح ہے کہ جو بھی عمارت آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہوتی ہے۔ اس سے تقریبا 200 میٹر کے فاصلے تک کسی بھی عمارت کی تعمیر غیر قانونی ہوگی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کرنل جون کالن کی لاٹ سے متصل ہی مکانات تعمیر ہیں جس پر محکمہ انددیکھی کی کر رہی ہے۔ ا
ان کا کہنا ہے کہ لکھنؤ کی یہ واحد تاریخی عمارت نہیں ہے جس پر غیر قانونی قبضہ ہے بلکہ کئی ایسی تاریخی عمارتیں ہیں جو محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام بھی ہیں لیکن وہاں پر اس قدر غیر قانونی قبضے ہیں کہ تاریخی عمارتوں کا وجود خطرے میں ہے۔انہوں نے بتایا چاہے لکھنؤ کے گولہ گنج علاقے میں واقع عالیہ بیگم کا مقبرہ ہو یا موتی جھیل ہو یا گاؤں گھاٹ ہو یا کرنل کی لاٹ ان تمام مقامات پر اس قدر غیر قانونی قبضے ہیں کہ وہاں پہنچنا بھی دشوار ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:گورکھپور: کشی نگر ہائی وے پر سڑک حادثہ، 6 لوگ ہلاک، 27 زخمی
کرنل جون کالن لاٹ سے متصل مکان میں درزی کا کام کرنے والے عبداللہ قریشی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لاٹ دن بدن اپنی وجود کھو رہا ہے علاقے کے لوگ یہاں پر کوڑا ڈالتے ہیں اس سے بچانے کے لیے لوہے کا دروازہ لگایا گیا ہے محکمہ کے افراد کا ایک دو بار دورہ ہوا لیکن کوئی بھی نتیجے نہیں نکلا افسوسناک بات یہ ہے کہ جہاں پر سیاحوں کی امد ہونی چاہیے اور اس کی دیکھ بھال صحیح طریقے سے ہونی چاہیے لیکن محکمے کے لوگ اسے پوری طریقے سے نظر انداز کر رہے ہیں۔