اس موقع پر خواجہ افتخار نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان جو خلا پیدا ہو گیا ہے یہ کتاب اس کے لیے پل سازی کا کام کرے گی۔
موہن بھاگوت کے بیان پر انہوں نے کہا کہ وہ ایک تنظیم کے سربراہ ہیں اور اگر کوئی سربراہ اپنے کیڈر کے سامنے کوئی بیان دیتا ہے تو اس پر عمل کرنا ان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ ان کے اس بیان کے بعد حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ مجھے چاپلوس یا کوئی اور القاب دے رہے ہیں دراصل وہ ضمیر فروش انسان ہیں اور وہی ایسا سوچ رہے ہیں البتہ میں نے کبھی بھی مفاد کے لیے کچھ نہیں کیا میری نہ تو انگلی کسی سے دبی ہے اور نہ آنکھیں کسی سے جھکی ہیں۔