ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کملیش قتل کیس میں تین لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ ان میں مولانا محسن شیخ، یہ سورت میں کپڑے کی دکان میں کام کرتے ہیں۔
راشد احمد، یہ کمپیوٹر کے ماہر ہیں اور تیسرے شخص کا نام فیضان ہے۔ واضح رہے کہ ان تینوں کا تعلق گجرات صوبہ سے ہے۔
ڈی جی پی نے کہا کہ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا، لیکن انہیں پوچھ گچھ کرکے چھوڑ دیا گیا، لیکن ان پر ہماری نظر بنی ہوئی ہے۔
جو تین لوگ حراست میں لیے گئے ہیں انکی کوئی کریمنل ہسٹری نہیں ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ان تینوں کو ریمانڈ کے لیے گجرات سے یو پی لائینگے۔
ایک طرف جہاں اُتر پردیش کے ڈی جی پی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہیں کملیش کے بیٹے ستیم تیواری کا صاف کہنا ہے کہ 'ہمیں پولیس انتظامیہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ اگر جن لوگوں نے قتل کیا ہے اور اُنکے پہچان ہو گئی ہے تو ٹھیک ورنہ بے قصور افراد کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
کملیش تیواری کی ماں نے بھی الزام لگایا تھا کہ اُنکے بیٹے کے قتل میں ایک بی جے پی لیڈر کا ہاتھ ہے۔
طرح سے کملیش کا قتل ہوا ہے وہ اُنکے کسی جان پہچان والوں نے ہی کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایک مٹھائی کا ڈبہ لےکر وہاں گئے تھے اور وہ دونوں وہاں آدھا گھنٹہ سے زیادہ ان کی بات ہو رہی تھی اس کے بعد کملیش کو گولی مار دی گئی۔
ڈی جی پی او نے کہا کہ ہمیں اس قتل کے کچھ اہم سراغ ملے ہیں اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دوسرے کچھ پوائنٹس ملے ہیں جس کے ذریعے ہم بہت جلد ہی اس پورے معاملات کی تحقیقات کرکے سچ سامنے لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ہم نے ایک ٹیم بھی بنائی ہے اور ایس ٹی ایف کو بھی اس معاملے میں لگا دیا گیا ہے۔
فی الحال لکھنؤ میں حالات قابو میں ہیں۔ ہمارے اعلیٰ افسران مستعدی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ڈی جے پی نے کہا کہ کملیش تیواری کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے اور چوبیس گھنٹے کے اندر ہم قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں پکڑ لیں گے۔
قاتلوں کے ذریعے ہی ہم اس بات کا پتا لگا سکتے ہے کہ انہوں نے کیس وجہ سے کملیش دیواری کا قتل کیا؟