ریاست اترپردیش کے ضلع جونپور میں شرقی و مغل دور کی تاریخی و قدیمی عمارتیں آج بھی اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کراتی رہتی ہیں۔ ان میں سے چند تو محفوظ و آباد ہیں اور بیشتر بدحالی کا شکار ہیں۔ انہیں میں سے ایک فیروز شاہ کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ شہر کے محلہ سپاہ میں لب سڑک موجود ہے۔
مقبرہ فیروز شاہ پختہ و بلند ہے۔ مقبرہ میں موجود مزار بہت ہی جاہ و جلال کی مالک ہے۔ مقبرہ عالیشان و پر شکوہ ہے۔ اس میں چہار جانب سے دروازے ہیں۔ مقبرے کے نقش و نگار، فن پارے، گنبد، بنانے والے کی فنکاری کو عیاں کر رہی ہے۔
حکومت و انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے ان دنوں مقبرہ بدحالی کا شکار ہے۔ یہ مقبرہ آثارِ قدیمہ کی زیرِ نگرانی ہے۔ مقبرہ کے آس پاس لگی دکانیں اس کی خوبصورتی میں کمی لاتی ہیں اور اکثر لوگ غلط فہمی کے باعث اس مقبرے کو فیروز شاہ تغلق کا مقبرہ سمجھتے ہیں جس نے جونپور کو 1359 میں بسایا تھا جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب بابر بادشاہ نے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور دہلی پر قبضہ کرکے اعلان شاہی کیا تو اس وقت شہزادہ فیروز شاہ بھی دہلی میں موجود تھا اور بابر بادشاہ کے ہمراہ بھارت آیا تھا۔
بابر بادشاہ فیروز شاہ کی بہت قدر کرتا تھا اس نے سب سے پہلے اطرافِ میرٹھ میں جاگیر دی۔ پھر بابر بادشاہ نے سرکش افغانوں کی سرکوبی کے لئے دس ہزار فوج کے ساتھ شہزادہ فیروز شاہ کو جونپور بھیجا۔
جونپور میں پچاس ہزار افغان فوجوں کا بابری فوج مقابلہ نہ کر سکی۔ شہزادہ فیروز شاہ کو شکست ہوئی اور جونپور سے واپس دہلی چلا گیا۔
دوبارہ بابر بادشاہ نے جونپور پر حملہ کیا اور افغانوں کو پسپا کرکے جونپور پر قبضہ کر لیا اس کے بعد شہزادہ فیروز شاہ کو جونپور کا حاکم مقرر کر دیا۔
شہزادہ فیروز شاہ نے جونپور کو از سرِ نو آباد کیا اور رعایا کے دلوں میں اطمینان پیدا کرکے شہر میں امن و امان قائم کیا بقیہ عمر اپنی جونپور میں ایمان داری سے گزاری انتقال کے بعد محلہ سپاہ میں دفن ہوا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی نے بتایا کہ روزآنہ میں یہاں آتا ہوں اور جمعرات کو اکثر لوگ آتے ہیں جو فاتحہ خوانی و چادر پوشی کرتے ہیں۔ یہ مقبرہ آثارِ قدیمہ کے تحت تو ضرور ہے مگر کوئی دیکھ بھال نہیں ہوتی ہے۔ سرکاری ملازم تو ہے مگر وہ صرف تالا بند کرنے کے لیے ہے، صاف صفائی اس کے بچے کرتے ہیں۔
اگر حکومت و آثار قدیمہ تاریخی عمارتوں کی حفاظت و مرمت کا خیال رکھتی تو جونپور میں سیاحت کے مواقع بڑھ سکتے تھے جس سے جونپور کی عوام کو بھی فائدہ پہنچتا۔