گزشتہ 8 اپریل کو بنارس کے سِوِل جج آشوتوش تیواری کی جانب سے گیان واپی مسجد کے احاطے میں محکمہ آثار قدیمہ کی پانچ رکنی ٹیم کو سروے کرنے کی اجازت دے کر اس معاملے میں نئی بحث شروع کر دی ہے۔
اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ اور انجمن مساجد انتظامیہ سِوِل جج کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رہی ہے تاہم اہم سوال یہ ہے کہ کیا سروے کے فیصلے کے بعد گیان واپی مسجد کیس بھی بابری مسجد کیس کی راہ چل پڑا ہے؟
گیان واپی مسجد کی جانب سے فریق انجمن مساجد انتظامیہ کے جوائنٹ سکریٹری سید محمد یاسین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بابری مسجد معاملے میں بلا وجہ بیان بازی اور غیر ضروری لوگوں کی دخل اندازی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سِوِل جج کے سروے کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ بھی اُسی راہ پر لے جانے کی کوشش ہے لیکن میری پوری کوشش ہوگی کہ ہم ان کے چال میں نہ آئیں۔
انہوں نے کہا کہ 'سول جج کے فیصلے کے بعد اسی نوعیت کے رد عمل سامنے آ رہے ہیں جس میں ایکشن کمیٹی بنانے کی بات سامنے آئی لیکن ایسا نہیں ہونے دیں گے غیر ضروری بیانات سامنے آ رہے ہیں بیجا افراد مداخلت کی بات کررہے ہیں جو گیان واپی مسجد معاملے کو کمزور کرنے کی سمت میں ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
سید محمد یاسین نے مزید بتایا کہ 'سِوِل جج نے سروے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ ایک طرح سے حکومت کے ایما پر ہے اور جج کے اختیارات سے باہر بھی ہے کیونکہ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت تھا اور 1991 ایکٹ بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'جج نے اس فیصلے سے خود کو بے داغ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، کچھ دنوں قبل بنارس کے وکلاء نے سِوِل جج کی عدالت کا بائیکاٹ یہ کہہ کر کیا تھا کہ جج بدعنوانی کے الزامات میں ملوث ہیں۔ محمد یاسین نے کہا کہ جس جج پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ان سے انصاف کی امید کرنا فضول ہے۔
واضح رہے کہ 'بابری مسجد کیس میں 2002 کو آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے ایکشن کمیشن کا قیام کیا تھا جس کا مقصد تنازع کو حل کرنا اور ہندو۔مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
اس کے بعد الہٰ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی اور 2003 میں کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے کُھدائی کا فیصلہ دیا کہ مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ہیں کہ نہیں ہے جس کے بعد اے ایس آئی نے الہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے دسویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشارہ ملتا ہے۔
گیان واپی مسجد میں اے ایس آئی کے ذریعہ سروے کرانے کے فیصلہ کے حوالے سے بھی یہی خدشات ہیں جس کی وجہ سے انجمن مساجد انتظامیہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرےگی۔
گیان واپی مسجد کے تعلق سے مورخین اور دانشوروں نے لکھا ہے کہ 'ایک بار بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا بنارس سے گزر ہو رہا تھا کہ ان کے وزراء نے سفارش کی کہ کاشی میں قیام کیا جائے۔ وزراء کی سفارش کے بعد کاشی میں قیام ہوا۔ کچھ ہندو وزیروں نے مندر میں پوجا اور درشن کئے، اسی دوران ایک وزیر کی اہلیہ گُم ہوگئی۔ بہت تلاش کے بعد ان کی اہلیہ مندر کے تہ خانے میں ملی جس کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
اس واقعہ کے بعد بنارس کے برہمن اور پنڈتوں نے کہا کہ 'اس معاملے کے بعد مندر کی عظمت پامال ہوئی ہے اس کے بعد مندر کو توڑنے کا حکم دیا اس سے متصل ہی مسجد تعمیر ہوئی جس میں بنارس میں آنے والے تاجر اور مندر کی حفاظت کے لیے تعینات مسلم سکیورٹی اہلکار نماز ادا کرتے تھے۔
کچھ مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسجد کی تجدید کاری اورنگ زیب عالمگیر نے کی تھی۔ مسجد کی بنیاد خود یہاں کے برہمنوں نے رکھی تھی اور تعمیر سلیمان نام کے تاجر نے کروائی تھی۔ مسجد کے احاطے میں ایوان شریعت نامی مدرسہ بھی چل رہا تھا بعد میں مدرسہ بند کر دیا گیا۔ اس مسجد کے بالکل قریب ایک کتب خانہ میں موجود تھا۔