علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15 دسمبر کو پیش آئے تشدد کے بعد پولیس کی کارروائی کی چوطرفہ تنقید پر ایس ایس پی آکاش کلہاڑی پولیس اہلکاروں کے بچاؤ کے لیے سامنے آئے اور انہوں نے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کیا، جس میں طلبا کو باب سید کا دورازہ جھولتے ہوئے دکھایا گیا ہے، کیوں کہ طلبا شہری ترمیمی قانون کے خلاف غصے میں تھے، اور پولیس اپنے بچاؤ میں طاقت کا استعمال کررہی تھی۔
پولیس کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری ہونے والے ویڈیو میں جہاں طلبا کو باب سید پر جھولتے ہوئے دکھایا جارہا ہے، تو وہیں دوسری جانب ایک اور ویڈیو وائرل ہورہا ہے، جس میں باب سید کی دوسری سمت پولیس باب سید کو پکڑے ہوئے صاف نطر آتی ہے، اب ایسے میں محض طلبا پر الزام عائد کرنا کیا انصاف ہوگا؟
ایک طرف پولیس کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں پولیس نے کم سے کم فورس کا استعمال کیا تھا، بہر حال دونوں جانب سے یہ جانچ کا موضوع ہے، جو ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا سمیت انتظامیہ بھی انصاف کی منتظر ہے۔
خیال رہے کہ علی گڑھ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں اے ایم یو میں مظاہرہ کیا گیا تھا، طلباکی تحریک کی سوراج پارٹی کے بانی یوگیندر یادو اور گورکھپور آکسیجن سانحہ کے مشہور ڈاکٹر کفیل خان نے حمایت کی تھی۔
اتنا ہی نہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کو امریکہ کی 19 یونیورسٹیز کے سینکڑوں طلبا و طالبات کی حمایت حاصل ہے۔
خیال رہے کہ ہارورڈ، ییل، کولمبیا، سٹینفورڈ سمیت کل 19 یونیورسٹیز کے طلبا نے بھارت میں طلبا پر 'پرتشدد پولیس کارروائی' کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے تھے۔
یاد رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ، ملک بھر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا ہال ہی میں منظور کیے گئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کررہے تھے، جبکہ طلبا نے اس قانون کو غیر آئینی اور امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
یاد رہے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دروان علی گڑھ انتظامیہ نے مسلم یونیورسٹی کے درجنوں طلبا کو حراست میں لے لیا تھا جنہیں اب رہا کردیا گیا ہے۔
وہیں دوسری جانب اے ایم یو میں شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف یونیورسٹی میں پانچ جنوری تک سرمائی چھٹیاں ہوگئی ہیں، لیکن طالبات کا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔
دوسری جانب اے ایم یو کے طلبہ اور ٹیچرز نے کہا کہ یونیورسٹی پانچ جنوری کو دوبارہ کھلنے کے بعد وائس چانسلر کو استعفیٰ دینا ہوگا، کیوں کہ 15 دسمبر کی رات جو بھی کچھ ہوا اس کا راست طور پر ذمہ دار صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔
یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کی اجازت کے بعد یونیورسٹی کے پچاس سے زیادہ طلبہ زخمی ہوئے اور دو طلبہ کے ہاتھ پر آنسو گیس کے گولے پھٹنے کی وجہ سے ایک طالب علم کا ہاتھ بھی کاٹنا پڑا، تاہم ہسپتال میں زیر علاج ایک اور طالب علم کی حالت نازک بتائی جارہی ہے جس کو مزید علاج کے لیے دہلی بھیجا گیا۔
دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ، والدین سمیت تمام علیگ برادری امن و امن بنائے رکھیں، کیوں کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ، والدین سمیت تمام علیگ برادری وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور سے ناراض ہیں، اور ان سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔