اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت سے آج بھی سیاحوں کی پہلی پسند بنی ہوئی ہیں۔ یہاں پر ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہر روز سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں، لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کو دیکھتے ہوئے سیاحتی مقامات کو بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
نوابی دور کے امام بارگاہوں میں صرف لوگ سیر و تفریح کے لئے نہیں جاتے بلکہ بڑی تعداد میں عقیدت مند زیارت کے غرض سے جاتے ہیں لیکن اب انہیں بغیر زیارت کے ہی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
اگر نوابی دور کے قدیم عمارتوں کی بات کریں تو یہاں پر بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف، بھول بھلیاں، رومی دروازہ، پکچر گیلری، قدم رسول وغیرہ کئی ایسی عمارتیں ہیں، جہاں پر روزانہ کثیر تعداد میں ملک کے مختلف خطوں سے سیّاح سیروتفریح کے لئے آتے تھے۔
شاہ نجف امام باڑہ میں ملازمت کر رہے حسن عباس جو سپاہی ہیں، نے بات چیت کے دوران بتایا کہ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد سے یہاں پر تالا لگا دیا گیا ہے، جو زائرین آتے ہیں، وہ لوگ صرف امام بارگاہ کی چوکھٹ چوم کر اور دعا کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ہر روز بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے لیکن اب بمشکل چند لوگ ہی آ رہے ہیں۔
حسن عباس نے کہا کہ کورونا وبا سے جان بچانا بھی ضروری ہے لیکن جب تک ٹورسٹ آئیں گے نہیں، تب تک ہماری آمدنی نہیں ہوگی کیونکہ ٹورسٹ گائیڈ کے ذریعے ہی کمائی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات یہ ہیں کہ اس مہنگائی کے دور میں بھی حسین آباد ٹرسٹ کے ملازمین کو 6 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف امام باڑہ میں ملازمت کر رہے لوگوں کی آمدنی پر اس کا اثر ہوگا بلکہ سیاحوں کو دیگر مقامات پر تانگہ سے گھمانے والوں نے اپنا دکھ درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ سرکار کوئی فیصلہ لینے سے پہلے ہم غریبوں کے بارے میں خیال کرے۔
معلوم رہے کہ بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، شاہ نجف امام باڑہ، پکچر گیلری حسین آباد ٹرسٹ کے زیر نگراں ہیں۔ ٹرسٹ کا چیئرمین لکھنؤ کا ڈی ایم ہوتا ہے۔ یہاں پر کثیر تعداد میں سیاح آتے ہیں، جس سے ٹرسٹ کی سالانا آمدنی کروڑوں روپے کی ہوتی ہے لیکن ملازمین کی تنخواہ بمشکل 6 ہزار روپے ماہانہ ہے۔
اب کورونا وبا کے چلتے سبھی سیاحتی مقامات پر تالا لگا دیا گیا ہے، جس سے بطور گائیڈ کام کرنے پر ہونے والی آمدنی بالکل نہیں ہو پا رہی۔ اس مہنگائی کے دور میں اتنی کم تنخواہ پر گزارا کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔
مزید پڑھیں:
lockdown impact: ہوٹل کاروباری شدید مشکل میں
حسن عباس نے کہا کہ جب تک لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوتا، ہمارے لئے پریشانی بڑھتی رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ دو ماہ سے خالی بیٹھے ہیں، جس سے پریوار کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے، اوپر سے بچوں کے تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔