بنارس کے ہندو لہرا علاقے میں سینکڑوں برس قبل لہراساہو نے بچے کی پیدائش کے لیے تعزیہ رکھنے کی منت مانی تھی، جس کے بعد سے رانگے کی تعزیہ کی ابتدا ایک ہندو خاندان نے کی۔
اس بعد اس تعزیہ کی ذمہ داری مسلم سماج کے لوگوں کو دے دی گئی۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تعزیہ کے ذمہ دار حاجی عبدالرحیم انصاری نے بتایا کہ، 'قدیم زمانے میں ہندو مسلم میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا، ہندو مسلم بھائی چارہ گنگا جمنی تہذیب، قومی یکجہتی کا بول بالا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہندو بھائی مسلم تہواروں میں شامل ہوتے تھے اور مسلم ہندو بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔'
عبدالرحیم انصاری بتاتے ہیں کہ، 'لہرا ساہو کے معمولات میں مسلم خاندان ساتھ کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھا شامل تھا۔
یہی وجہ ہے کہ لہرا ساہو متاثر ہوئے اور تعزیہ کی منت مانی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے نہ کوئی ہندو تھا، نہ مسلمان تھا، سبھی متحدہ طور پر رہتے تھے لیکن ماضی قریب کے 20 سال میں میں دونوں مذاہب میں فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوئی۔
مزید پڑھیں:
تاریخی 'بی بی کے علم کی سواری' لوگ اس بار نہیں دیکھ سکیں گے
یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلم بھائی چارہ کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن بنارس میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ قائم رہیں گی اور ہندو مسلم بھائی چارہ کے پیغام عام کرتی رہیں گی۔