ETV Bharat / state

مورتیاں بھی سردی کا شکار - ٹھنڈ سے بچنے کے لیے لوگوں نے

غریب طبقہ سردی سے بچاؤ کے لیے خاطر خواہ انتظام نہیں کرپا رہا ہے، ایسی صورت حال میں وزیراعظم کے پارلیمانی حلقے میں مورتیوں کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے سویٹر پہنایا گیا ہے۔

وارنسی میں سردی سے بچانے کے لیے عقیدت مندوں نے مرتیوں کو سویٹر پہنایا
وارنسی میں سردی سے بچانے کے لیے عقیدت مندوں نے مرتیوں کو سویٹر پہنایا
author img

By

Published : Dec 23, 2019, 2:59 PM IST

اتر پردیش کا کاشی ایک ایسا شہر جسے مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ، جہاں عقیدت مندوں اور دیوتاؤں کے تئیں الگ ہی عقیدت دیکھنے کو ملتی ہے۔

وارنسی میں سردی سے بچانے کے لیے عقیدت مندوں نے مرتیوں کو سویٹر پہنایا
اس سردی کے موسم میں جہاں لوگ سردی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے بہت سے طریقے آزما رہے ہیں۔ اور بے شمار غریب افراد کو سویٹر بھی میسر نہیں ہے وہیں دوسری جانب عقیدت مندوں نے دیوتاؤں کو سویٹر پہناکر انہیں بھی سردی سے بچانے کے تمام انتظامات کئے ہیں۔

سردی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے عقیدت مند اپنے دیوتاؤں کو لحاف اور سویٹر سے سجا رہے ہیں۔وارانسی کے لوہٹیا ، کے پاس بڑا گنیش مندر جہاں ویگنہارٹا کی سجاوٹ میں لحاف کا استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدت مندوں نے گنیش جی کو سردی اور سرد لہر سے بچانے کے لئے لحاف اور کمبل اوڑھائے ہیں۔

وہیں ایک عقیدت مند کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سردی تو جنوری کے وسط میں پڑتی ہے، لیکن اس بار سردی بہت زیادہ پڑ رہی ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جب ہمیں گرمی محسوس ہوتی ہے تو ہمارے دیوتا کو بھی گرمی لگتی ہے۔ اسی لیے جب ہمیں سردی لگ رہی ہے تو دیوتا کو بھی ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ ہم لوگوں نے انہیں لحاف اوڑھائی، سویٹر پہنایا اور وقتا فوقتا مندر کو گرم کرنے کے لیے ہیٹر اور الاؤ کا بھی استعمال کیا ہے۔
مندر کے مہنت ابھے دوبے کا کہنا ہے کہ جس طرح سے انسان کو ٹھنڈ لگتی ہے اسی طرح بابا بڑا گنیش کو بھی ٹھنڈ لگتی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے عقدیت مندوں کا احساس ہے۔ اس مندر میں گرمیوں میں دیوتاوں کے لیے پنکھا، کولر اور ایئر کنڈیشن کا استعمال کیا جاتاہے، اسی طرح سردی میں لحاف کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہاڑوں پر زیادہ برف باری کے سبب میدانی علاقوں میں سردی زیادہ پڑ رہی ہے۔

اس بار بے وقت بڑھی سردی نے لوگوں کو کافی حیران اور پریشان کیا ہے۔ لوگ اس سردی کی وجہ کچھ دنوں پہلے ہوئی بارش کو بتارہے ہیں۔

اتر پردیش کا کاشی ایک ایسا شہر جسے مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ، جہاں عقیدت مندوں اور دیوتاؤں کے تئیں الگ ہی عقیدت دیکھنے کو ملتی ہے۔

وارنسی میں سردی سے بچانے کے لیے عقیدت مندوں نے مرتیوں کو سویٹر پہنایا
اس سردی کے موسم میں جہاں لوگ سردی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے بہت سے طریقے آزما رہے ہیں۔ اور بے شمار غریب افراد کو سویٹر بھی میسر نہیں ہے وہیں دوسری جانب عقیدت مندوں نے دیوتاؤں کو سویٹر پہناکر انہیں بھی سردی سے بچانے کے تمام انتظامات کئے ہیں۔

سردی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے عقیدت مند اپنے دیوتاؤں کو لحاف اور سویٹر سے سجا رہے ہیں۔وارانسی کے لوہٹیا ، کے پاس بڑا گنیش مندر جہاں ویگنہارٹا کی سجاوٹ میں لحاف کا استعمال کیا گیا ہے۔ عقیدت مندوں نے گنیش جی کو سردی اور سرد لہر سے بچانے کے لئے لحاف اور کمبل اوڑھائے ہیں۔

وہیں ایک عقیدت مند کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سردی تو جنوری کے وسط میں پڑتی ہے، لیکن اس بار سردی بہت زیادہ پڑ رہی ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جب ہمیں گرمی محسوس ہوتی ہے تو ہمارے دیوتا کو بھی گرمی لگتی ہے۔ اسی لیے جب ہمیں سردی لگ رہی ہے تو دیوتا کو بھی ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ ہم لوگوں نے انہیں لحاف اوڑھائی، سویٹر پہنایا اور وقتا فوقتا مندر کو گرم کرنے کے لیے ہیٹر اور الاؤ کا بھی استعمال کیا ہے۔
مندر کے مہنت ابھے دوبے کا کہنا ہے کہ جس طرح سے انسان کو ٹھنڈ لگتی ہے اسی طرح بابا بڑا گنیش کو بھی ٹھنڈ لگتی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے عقدیت مندوں کا احساس ہے۔ اس مندر میں گرمیوں میں دیوتاوں کے لیے پنکھا، کولر اور ایئر کنڈیشن کا استعمال کیا جاتاہے، اسی طرح سردی میں لحاف کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہاڑوں پر زیادہ برف باری کے سبب میدانی علاقوں میں سردی زیادہ پڑ رہی ہے۔

اس بار بے وقت بڑھی سردی نے لوگوں کو کافی حیران اور پریشان کیا ہے۔ لوگ اس سردی کی وجہ کچھ دنوں پہلے ہوئی بارش کو بتارہے ہیں۔

Intro:स्पेशल
धर्म और अध्यात्म की नगरी काशी में भक्त, भाव और भगवान...इन तीन शब्दों का आपस में गहरा नाता रहा है। कहा जाता है कि मनुष्य परमपिता परमेश्वर को जो भी अर्पित करता है अपने भक्ति से अर्पित करता है। वही भगवान उसके भाव से ही प्रसन्न हो जाते हैं।अगर भाव यानि भावनाएं हटा दी जाए तो भक्त और भगवान के बीच का रिश्ता ही टूट जायेगा...... यहीं वजह है कि मंदिरों के शहर काशी के मंदिर में विराजमान भगवान की पूजा श्रद्धालु पुरे भाव के साथ करते हैं। इसी भावना को मौसम के सितम के वक्त भी श्रद्धालु प्रकट करते चले आ रहें हैं। लेकिन इस बार बेवक्त आई ज्यादा ठंडी के चलते भक्त अपने भगवान को ठंड से बचाने के लिए रजाई और स्वेटर से श्रृंगार कर रहें हैं। यानि अब भगवान भी ठंड और शीतलहर की जद में आ गए हैं।

Body:इस बार वक्त से पहले आई ठंड ने सबको हिला कर रख दिया है....जिससे भगवान भी अछूते नहीं हैं.....जी हाँ....ये सच है, क्योंकि भगवान को भी ठंड से बचने के लिए न केवल स्वेटर, बल्कि रजाई-कंबल तक की जरूरत पड़ रही है....यकिन नहीं होता तो आपको लिए चलते हैं, वाराणसी के लोहटिया स्थित बड़ा गणेश मंदिर में....जहां विघ्नहर्ता के श्रृंगार में रजाई का इस्तेमाल हुआ है और श्रद्धालुओं ने गणेश जी को ठंड और शीतलहर से बचाने के लिए रजाई-कंबल ओढाए हुए हैं.....काशी के श्रद्धालुओं के लिए भगवान और भक्त में यहीं समानता है कि अगर ठंड भक्त को लग रही है तो भगवान को भी लगती होगी। लेकिन इस बार बेवक्त बढी ठंड ने लोगों को काफी हैरान और परेशान किया हुआ है। क्योंकि वाराणसी के लोगों को जनवरी के मध्य में भी इतने ठंड की आदत नहीं है। इसके पीछे श्रद्धालु कुछ दिनों पहले हुई बारिश को भी वजह बता रहें हैं।
Conclusion:
महंत अभय दुबे बताते है कि जिस तरह से इंसान को ठंड लगता है उसी प्रकार बाबा बड़ा गणेश को भी ठंड लगता होगा। वे बताते है कि इसके पीछे भक्त की भावना है। जिस तरह है गर्मियों में पंखा, कूलर और एसी का इस्तेमाल किया जाता है, उसी तरह ठंड में रजाई का इस्तेमाल होता है। वे बताते है कि पहाड़ों पर इस बार ज्यादा बर्फबारी के चलते ही मैदानी इलाकों में ठंड ज्यादा पड़ रही है।

बाईट- अभय दुबे- महंत, बड़ा गणेश मंदिर, वाराणसी।


विकास यादव बताया कितनी ठंड तो हमारे यहां जनवरी के मध्य में पढ़ती है लेकिन इस बार ठंड बहुत ज्यादा पड़ रही है यह हमारी आस्था है कि जब हमें गर्मी लगती है तो हमारी प्रभु को भी गर्मी लगती है इसीलिए जब आज हमें ठंड लग रही है तो भगवान को भी ठंड लग रही है इसलिए हम लोगों ने उन्हें रजाई पनाया स्वेटर पहनाया और समय-समय पर मंदिर को गर्म करने के लिए हीटर और अलाव का भी प्रयोग करते हैं

बाईट :-- विकास यादव,श्रद्धालु

नोट:-- यह स्टोरी ऑफिस से बोला गया है एडिटिंग वही वही होगी।

आशुतोष उपाध्याय, वाराणासी
7007459303
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.