ETV Bharat / state

حضرت پیر محمد شاہ کے عرس کا اغاز - دارالحکومت لکھنو

Hazrat Peer Muhammad Shah URS in Lucknow: لکھنو میں واقع ٹیلے والی مسجد سے متصل حضرت پیر محمد شاہ کا مزار برسوں سے عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آج ان کے 358ویں عرس کا اغاز ہوا۔ اس موقعے پر بعد نماز عصر مزار کو غسل دیا گیا، چادر پوشی کی گئی اور قل شریف پڑھ کر کے ایصال ثواب کیا گیا۔

حضرت پیر محمد شاہ کے عرس کا اغاز
حضرت پیر محمد شاہ کے عرس کا اغاز
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 28, 2023, 2:37 PM IST

حضرت پیر محمد شاہ کے عرس کا اغاز

لکھنؤ:ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع ٹیلے والی مسجد سے متصل حضرت پیر محمد شاہ کا مزار برسوں سے عوام و خواص کے عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آج ان کے 358 عرس کا آغاز ہوا۔ اس موقعے پر جس میں بعد نماز عصر مزار کو غسل دیا گیا، چادر پوشی ہوئی اور قل شریف پڑھ کر کے ایصال ثواب کیا گیا۔ اس میں مزار کے سجادہ نشین و متولی مولانا فضل المنان واعظی پیش رہے اور انہی کے قیادت میں تمام رسومات ادا کی گئیں۔


اس موقعے پر انہوں نے کیمرے پر کچھ بھی بولنے سے انکار کیا تاہم عقیدت مند کثیر تعداد میں عرس کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیے۔ یہ عرس دو دن تک جاری رہے گا جہاں پر محفل سماع، قوالی، نعت، منقبت اور تقریر کے بعد دعا پر اختتام ہوگا۔حضرت پیر محمد شاہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے زمانے کے بڑے عالم دین تھے انہوں نے کئی کتابیں لکھی جس کا تذکرہ' نزہحۃالخواطر' میں ملتا ہے ان کی شخصیت پر جواہر لال نہرو میں محمد عمران پرتاب گڑھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ان کے علاوہ خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں علم عبدالمبین نے بھی ریسرچ پیپر لکھا ہے۔

ان کے مطابق حضرت پیر محمد شاہ بنیادی طور پہ اتر پردیش کے شہر جونپور میں پیدا ہوئے اس کے بعد ابتدائی تعلیم اور اعلی تعلیم کے بعد لکھنو کی جانب رخ کیا اور یہاں شاہ مینا شاہ کے مزار پر برسوں عبادت و ریاضت کی اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا اس کے بعد لکھنو کو ہی انہوں نے اپنا اخری مسکن بنایا۔ انہوں نے تصوف پر عربی اور فارسی میں متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ان کے مخطوطات اج بھی موجود ہیں۔

انہوں نے گومتی ندی سے متصل ٹیلے پر ایک مسجد اور مدرسے کا تعمیر کیا تھا جس میں سینکڑوں طلبا زیر تعلیم ہوا کرتے تھے لیکن 1857 کی غدر کے دوران اس مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور اس میں سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ شہید ہو گئے جس کے بعد انگریزوں نے مسجد کو عرضی طور پر ہاسپٹل بنایا جہاں پر انگریز کے زخمی فوجیوں کا علاج کیا جاتا تھا

یہ بھی پڑھیں:'حضرت فاطمہؓ کی زندگی نئی نسل کے لئے مشعل راہ'

رسوں تک مسجد میں نماز پڑھنے کی پابندی رہی اور مدرسے کو منہدم کر دیا گیا لیکن 1901 میں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی اس کے بعد شیخ محمد افتاب اس کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے ان کے بعد مولانا فضل المنان موجودہ متولی اور سجادہ نشین ان سے قبل کے والد اور ان کے دادا متولی کے عہدے پر رہےہیں۔

حضرت پیر محمد شاہ کے عرس کا اغاز

لکھنؤ:ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع ٹیلے والی مسجد سے متصل حضرت پیر محمد شاہ کا مزار برسوں سے عوام و خواص کے عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آج ان کے 358 عرس کا آغاز ہوا۔ اس موقعے پر جس میں بعد نماز عصر مزار کو غسل دیا گیا، چادر پوشی ہوئی اور قل شریف پڑھ کر کے ایصال ثواب کیا گیا۔ اس میں مزار کے سجادہ نشین و متولی مولانا فضل المنان واعظی پیش رہے اور انہی کے قیادت میں تمام رسومات ادا کی گئیں۔


اس موقعے پر انہوں نے کیمرے پر کچھ بھی بولنے سے انکار کیا تاہم عقیدت مند کثیر تعداد میں عرس کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیے۔ یہ عرس دو دن تک جاری رہے گا جہاں پر محفل سماع، قوالی، نعت، منقبت اور تقریر کے بعد دعا پر اختتام ہوگا۔حضرت پیر محمد شاہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے زمانے کے بڑے عالم دین تھے انہوں نے کئی کتابیں لکھی جس کا تذکرہ' نزہحۃالخواطر' میں ملتا ہے ان کی شخصیت پر جواہر لال نہرو میں محمد عمران پرتاب گڑھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ان کے علاوہ خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں علم عبدالمبین نے بھی ریسرچ پیپر لکھا ہے۔

ان کے مطابق حضرت پیر محمد شاہ بنیادی طور پہ اتر پردیش کے شہر جونپور میں پیدا ہوئے اس کے بعد ابتدائی تعلیم اور اعلی تعلیم کے بعد لکھنو کی جانب رخ کیا اور یہاں شاہ مینا شاہ کے مزار پر برسوں عبادت و ریاضت کی اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا اس کے بعد لکھنو کو ہی انہوں نے اپنا اخری مسکن بنایا۔ انہوں نے تصوف پر عربی اور فارسی میں متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ان کے مخطوطات اج بھی موجود ہیں۔

انہوں نے گومتی ندی سے متصل ٹیلے پر ایک مسجد اور مدرسے کا تعمیر کیا تھا جس میں سینکڑوں طلبا زیر تعلیم ہوا کرتے تھے لیکن 1857 کی غدر کے دوران اس مدرسے کے طلبہ اور اساتذہ نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور اس میں سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ شہید ہو گئے جس کے بعد انگریزوں نے مسجد کو عرضی طور پر ہاسپٹل بنایا جہاں پر انگریز کے زخمی فوجیوں کا علاج کیا جاتا تھا

یہ بھی پڑھیں:'حضرت فاطمہؓ کی زندگی نئی نسل کے لئے مشعل راہ'

رسوں تک مسجد میں نماز پڑھنے کی پابندی رہی اور مدرسے کو منہدم کر دیا گیا لیکن 1901 میں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی اس کے بعد شیخ محمد افتاب اس کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے ان کے بعد مولانا فضل المنان موجودہ متولی اور سجادہ نشین ان سے قبل کے والد اور ان کے دادا متولی کے عہدے پر رہےہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.