رامپور سے 12 کلومیٹر کی دوری پر واقع کھود گاؤں کے ہفتہ واری بازار میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر بکروں اور دیگر قربانی کے چوپایوں کے بازار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
لیکن اس مرتبہ ضلع انتظامیہ کے ذریعہ بکروں کے بازار کی اجازت کے باوجود بھی پولیس اپنی جانب سے بکرا تاجروں پر سختی برت رہی ہے اور بکرا بازار میں پہنچ کر خرید و فروخت کرنے والے لوگوں پر طاقت کا استعمال کرکے ان کو وہاں سے ہٹا رہی ہے۔ جس سے بکرا پالنے والے تاجر کافی مایوس ہیں۔
جیسے بکرا تاجر کھود بازار پہنچتے ہیں، تو پولیس وہاں پہنچ ان کو ڈنڈے مارکر بھگا دیتی ہے۔ جس سے لوگ اپنے اپنے بکرے لیکر کھیتوں اور جنگلوں کی جانب دوڑ جاتے ہیں۔
ایک بکرا تاجر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، 'پولیس سے بچکر جب وہ اپنے بکروں کو لیکر جنگل کی جانب دوڑے تو بھاگنے سے ان کے ایک بکرے کی ٹانگ بھی ٹوٹ گئی۔'
انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ، 'عیب دار جانور کی قربانی تو کی نہیں جا سکتی اگر اسی طرح ہوتا رہا تو وہ کس طرح اپنے بکروں کو قربانی کے لیے فروخت کر سکتے ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ اس مرتبہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری ان لاک 2 کے مدنظر سوشل ڈسٹینسنگ قائم رکھنے کے لئے کئی طرح کی پابندیاں کی جا رہی ہیں۔
قربانی کا اہتمام اس مرتبہ کیسے کیا جائے اور قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے بازاروں کا اہتمام کس طرح کیا جائے؟ اس کے لئے ضلع کے علماء کرام ضلع انتظامیہ آنجنئے کمار سنگھ سے بھی ملے تھے اور ضلع انتظامیہ نے عیدالضحیٰ کے لیے بازاروں کو سوشل ڈسٹینسنگ کی پابندی کے ساتھ کھولنے اور قربانی کے جانوروں کے بازار لگانے کی اجازت دے تھی۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر پولیس اپنی جانب سے اسی قسم کا رویہ اپنائے رکھے گی تو پھر مسلمان اپنی قربانی جیسی عبادت کا اہتمام کس طرح کر سکیں گے؟
وہیں سوال یہ بھی ہے کہ اگر پولیس کسی کے مذہبی معاملات میں اسی طرح مداخلت کرتی ہے تو پھر ملک کے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟