حالیہ دنوں میں پلیس آف ورشپ ایکٹ (عبادت کی جگہ کا قانون) 1991 کو سپریم کورٹ میں بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کے ذریعے چیلینج کیا گیا ہے جس میں تبدیلی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جس کو لے کر اوکے تیرے والی مسجد انتظامیہ کے اہم ذمہ دار واصف حسین نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے۔
جس میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس ایکٹ میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، یہ آپسی اتحاد کے لیے بہت ضروری ہے۔
انہوں نے اس کے علاوہ اور بھی تفصیلات بتائی ہیں لیکن ای ٹی وی بھارت نے اس سلسلے میں گیان واپی مسجد کاشی وشوناتھ مندر معاملے میں مسلم فریق انجمن مساجد انتظامیہ کے سکریٹری ایس ایم یاسین سے خصوصی بات چیت کی۔
ایس ایم یاسین نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فیصلہ دیا تھا جس میں 9 ججز تھے۔ اب اگر پھر سے آئینی بینچ کی تشکیل ہوتی ہے جن کی تعداد 9 سے زیادہ ہو گئی تب ایکٹ میں ترمیم ممکن ہو پائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم فریق کی جانب سے جمعیت علماء ہند اور لکھنؤ کے ٹیلے والے مسجد کے اہم ذمہ دار واصف حسن نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے ایکٹ میں ترمیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امید ہے کہ عدالت اس پر غور و فکر کر کے ایکٹ کو برقرار رکھے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گیان واپی مسجد کے سلسلے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کچھ افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جس میں یہ ہے کہ عدالت 2 تاریخ کو مسجد کے اندر کھدائی کا حکم جاری کرے گی جو سراسر غلط ہے۔ ابھی یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور عدالت کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عوام سے اپیل کر رہے ہیں۔ عوام کسی بھی طرح کے جوش و جذبات سے کام نہ لے بلکہ امن و شانتی کو قائم رکھیں انجمن مساجد انتظامیہ قانونی چارہ جوئی ممکن حد تک کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر معاملہ میں تین نئے مقدمے درج کیے گئے ہیں جس میں کوئی دم نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد کا کیس الہ آباد ہائی کورٹ اور مقامی عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔ یہاں مسلسل سماعت چل رہی ہے جو بھی فیصلہ آئے گا اس کے بعد سپریم کورٹ کا بھی رخ کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور اور بنام انجمن مساجد انتظامیہ بنارس اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے مابین کیس برسوں سے جاری ہے۔
آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور کا دعویٰ ہے کہ گیان واپی احاطے میں مسجد کی جگہ سمبھو وشویشور کا مندر تھا اور یہ بہت ہی معروف تھا۔
ہندو فریق کا دعوی ہے کہ 1669 میں اورنگ زیب نے اس مقام کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اورنگ زیب کے حکم نامے میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا تھا کہ اس احاطے میں مسجد کی تعمیر کی جائے۔ ہندو فریق یہ بھی کہتا ہے کہ مسجد کی تعمیر غیر قانونی طریقے سے ہوئی ہے۔ کیس اس لیے درج کیا گیا ہے تاکہ قانونی طور پر اعلان کردیا جائے کہ یہ سمبھو وشویشور جیوتیلنگ کا مندر ہے۔
آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور کی جانب سے عدالت عرضی داخل کی گئی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے گیان واپی مسجد معاملے کی تحقیقات کرائی جائے جبکہ انجمن انتظامیہ اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اس معاملے پر سماعت نہ کرنے کی اپیل کیا تھا۔