ETV Bharat / state

' نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرأ - ڈاکٹر ارشاد سیانوی

ریاست اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں واقع چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں 'نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرا عمل میں آیا۔

' نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرأ
author img

By

Published : May 4, 2019, 11:55 PM IST

ریاست چھتیس گڑھ سے آئے مہمان خورشید حیات نے کہا کہ فکر نو کی تجلیوں کو نئی تنقید کے کوہِ طور پر دیکھنا ہو تو ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی کتاب”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کے ورق ورق کا مطا لعہ ضروری ہے کہ اکیس کہانیوں پر انہوں نے جو تجزیے کیے ہیں اسے پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہر کہانی پر تجزیہ کرتے وہ تحلیل کے مراحل سے گذرے ہیں۔

' نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرأ

اردو فکشن پر ریسرچ کرنے وا لے طلباء کے لیے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ الفاظ تھے جو شعبہ اردو میں منعقدہ پروگرام ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی دوسری تنقیدی کاوش”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کی رسمِ اجراء کے مو قع پر ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی تنقید عمومی رویوں کے ساتھ مجھے کبھی رو مانی تو کبھی رو حانی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ کہانی کی روح میں اتر کر تجزیہ کرتے ہیں۔ تنقید کے مروجہ اصو لوں سے انحراف ڈا کٹر ارشاد کی شناخت ہے۔

اس سے قبل پرو گرام کا آغازمفتی را حت علی صدیقی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پرو گرام کی صدارت،صدر شعبہ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کی۔مہمان خصو صی کے بطور پروفیسر سنجیو کما ر شر ما وائس چانسلر، مہاتما گاندھی سینٹرل یو نیورسٹی، بہار نے شرکت کی جبکہ مہمانان کے بطور ڈا کٹر وضا حت حسین رضوی، (ڈپٹی ڈائریکٹر، انفارمیشن،میرٹھ)سید معراج الدین (سابق چیئر مین،پھلاؤدہ)اور معروف فکشن نگار خورشید حیات شریک ہوئے۔استقبالیہ کلمات ڈا کٹر شاداب علیم اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے انجام دیے۔سبھی مہمانان نے مل کر کتاب کی رونمائی کی۔کتاب کا تعارف ڈا کٹر آصف علی نے پیش کیا۔اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کہا کہ یہ کتاب تحقیقی طالب علموں کے لئے بے حد مفید صابت ہوگی۔ ۱۲وی صدی میں ۱۲ کہانیوں کے حوالے سے کئی بدلاؤ پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی کئی بڑے نام چھوٹ گئے جن کو شامل کئے جانے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر سنجیو کمار (وائس چانسلر)نے کہا، اولاد اور طالب علم آگے بڑھ جائے اگر ان سے شکشت بھی مل جائے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اردو شعبۂ کی جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پرشناخت بنی ہے وہیں اس کے طلبہ اپنی رچناؤ کے ذریعہ پہچان بنا رہے ہیں۔ سید میراج الدین پھلاؤدہ نے کتاب کے بارے میں کہا کہ ۱۲صدی ایک چیلنج کا دور ہے جس میں آئے دن نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایمان داری سے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ وہ ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی کتاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

ریاست چھتیس گڑھ سے آئے مہمان خورشید حیات نے کہا کہ فکر نو کی تجلیوں کو نئی تنقید کے کوہِ طور پر دیکھنا ہو تو ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی کتاب”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کے ورق ورق کا مطا لعہ ضروری ہے کہ اکیس کہانیوں پر انہوں نے جو تجزیے کیے ہیں اسے پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہر کہانی پر تجزیہ کرتے وہ تحلیل کے مراحل سے گذرے ہیں۔

' نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرأ

اردو فکشن پر ریسرچ کرنے وا لے طلباء کے لیے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ الفاظ تھے جو شعبہ اردو میں منعقدہ پروگرام ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی دوسری تنقیدی کاوش”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کی رسمِ اجراء کے مو قع پر ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی تنقید عمومی رویوں کے ساتھ مجھے کبھی رو مانی تو کبھی رو حانی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ کہانی کی روح میں اتر کر تجزیہ کرتے ہیں۔ تنقید کے مروجہ اصو لوں سے انحراف ڈا کٹر ارشاد کی شناخت ہے۔

اس سے قبل پرو گرام کا آغازمفتی را حت علی صدیقی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پرو گرام کی صدارت،صدر شعبہ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کی۔مہمان خصو صی کے بطور پروفیسر سنجیو کما ر شر ما وائس چانسلر، مہاتما گاندھی سینٹرل یو نیورسٹی، بہار نے شرکت کی جبکہ مہمانان کے بطور ڈا کٹر وضا حت حسین رضوی، (ڈپٹی ڈائریکٹر، انفارمیشن،میرٹھ)سید معراج الدین (سابق چیئر مین،پھلاؤدہ)اور معروف فکشن نگار خورشید حیات شریک ہوئے۔استقبالیہ کلمات ڈا کٹر شاداب علیم اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے انجام دیے۔سبھی مہمانان نے مل کر کتاب کی رونمائی کی۔کتاب کا تعارف ڈا کٹر آصف علی نے پیش کیا۔اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کہا کہ یہ کتاب تحقیقی طالب علموں کے لئے بے حد مفید صابت ہوگی۔ ۱۲وی صدی میں ۱۲ کہانیوں کے حوالے سے کئی بدلاؤ پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی کئی بڑے نام چھوٹ گئے جن کو شامل کئے جانے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر سنجیو کمار (وائس چانسلر)نے کہا، اولاد اور طالب علم آگے بڑھ جائے اگر ان سے شکشت بھی مل جائے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اردو شعبۂ کی جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پرشناخت بنی ہے وہیں اس کے طلبہ اپنی رچناؤ کے ذریعہ پہچان بنا رہے ہیں۔ سید میراج الدین پھلاؤدہ نے کتاب کے بارے میں کہا کہ ۱۲صدی ایک چیلنج کا دور ہے جس میں آئے دن نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایمان داری سے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ وہ ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی کتاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

Intro:چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں 'نئی صدی کا افسانہ' کتاب کا رسم اجرا ہوا ہے.


Body:چھتیس گڑھ سے آ ئے مہمان خورشید حیات نے کہا کہ فکر نو کی تجلیوں کو نئی تنقید کے کوہِ طور پر دیکھنا ہو تو ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی کتاب”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کے ورق ورق کا مطا لعہ ضروری ہے کہ اکیس کہانیوں پر انہوں نے جو تجزیے کیے ہیں اسے پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہر کہانی پر تجزیہ کرتے وہ تحلیل کے مراحل سے گذرے ہیں۔

اردو فکشن پر ریسرچ کرنے وا لے طلباء کے لیے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ الفاظ تھے جو شعبہ اردو میں منعقدہ پروگرام ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی دوسری تنقیدی کاوش”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کی رسمِ اجراء کے مو قع پر ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی تنقید عمومی رویوں کے ساتھ مجھے کبھی رو مانی تو کبھی رو حانی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ کہانی کی روح میں اتر کر تجزیہ کرتے ہیں۔ تنقید کے مروجہ اصو لوں سے انحراف ڈا کٹر ارشاد کی شناخت ہے۔
  اس سے قبل پرو گرام کا آغازمفتی را حت علی صدیقی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پرو گرام کی صدارت،صدر شعبہ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کی۔مہمان خصو صی کے بطور پروفیسر سنجیو کما ر شر ما وائس چانسلر، مہاتما گاندھی سینٹرل یو نیورسٹی، بہار نے شرکت کی جبکہ مہمانان کے بطور ڈا کٹر وضا حت حسین رضوی، (ڈپٹی ڈائریکٹر، انفارمیشن،میرٹھ)سید معراج الدین (سابق چیئر مین،پھلاؤدہ)اور معروف فکشن نگار خورشید حیات شریک ہوئے۔استقبالیہ کلمات ڈا کٹر شاداب علیم اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے انجام دیے۔سبھی مہمانان نے مل کر کتاب کی رونمائی کی۔کتاب کا تعارف ڈا کٹر آصف علی نے پیش کیا۔اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کہا کہ یہ کتاب تحقیقی طالب علموں کے لئے بے حد مفید صابت ہوگی۔ ۱۲وی صدی میں ۱۲ کہانیوں کے حوالے سے کئی بدلاؤ پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی کئی بڑے نام چھوٹ گئے جن کو شامل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر سنجیو کمار (وائس جانسلر)نے کہا، اولاد اور طالب علم آگے بڑھ جائے اگر ان سے شکشت بھی مل جائے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اردو شعبۂ کی جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پرشناخت بنی ہے وہیں اس کے طلبہ اپنی رچناؤ کے ذریعہ پہچان بنا رہے ہیں۔  سید میراج الدین پھلاؤدہ نے کتاب کے بارے میں کہا کہ ۱۲صدی ایک چیلنج کا دور ہے جس میں آئے دن نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایمان داری سے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ وہ ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی کتاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ 
  اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے کہا کہ کتاب کا اجرء ہر ادیب کے لئے خواب ہوتا ہے مگر جب وہ چھپ کر سامنے آ جاتی ہے تو یہ لکھنے والوں کے لئے نہیں بلکہ وہ پڑھنے والوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ نئی صدی کے افسانہ کو ڈاکٹر ارشاد نے کیسے دیکھا اور کنہیں منتخب کیاکہ یہ ان کا فیصلہ ہے۔ اگر معروف ادیب افسانہ نگار کو ہی انتخاب میں شامل کرتے رہیں گے تو نئے اور اچھے مصنف کب سامنے ائینگے؟ کب ان پر لکھا جائے گا۔ کوئی معیار اور کوئی مقصد تو ہو؟ جسے سامنے رکھ کر لکھاجائے۔ 
  اس موقع پر سبھی مہمانان کو مومینٹو پیش کئے گئے۔ پروگرام میں ڈاکٹرجمال احمد صدیقی، ڈاکٹر سیدہ، انجینئر رفعت جمالی، حاجی امران صدیقی، ڈاکٹر تعظیم جہاں، بھارت بھوشن شرما، انل شرما، فیضان انصاری، ڈاکٹر ودیا ساگر، ڈاکٹر آصف، ڈاکٹریونس غازی، ڈاکٹرارشاد، طاہر سیفی، آفاق احمد، محمد شمشاد، سعید سہارنپوری، شناور اسلم، شعیب، مدیہہ اسلم، وشودیپ سدھارتھ، مظہر سیانوی، ڈاکٹرظہیر، محمد علی، ڈاکٹرحکیم، ماسٹر آصف، کوثر پروین، گلزار احمد، محمد شہزاد، حافظ محمد آزاد، ابدال خالک، علی محمد،  ماسٹر منےّ خاں، نظیر میڑٹھی، اظہار ندیم، اسد قمر، وسی حیدران کے علاوہ شہر کے معزز حضرات، مختلف اسکول، کالج کے طلبہ و طلبات اور اساتزہ اکرام موجود رہے۔
    





Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.