ریاست چھتیس گڑھ سے آئے مہمان خورشید حیات نے کہا کہ فکر نو کی تجلیوں کو نئی تنقید کے کوہِ طور پر دیکھنا ہو تو ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی کتاب”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کے ورق ورق کا مطا لعہ ضروری ہے کہ اکیس کہانیوں پر انہوں نے جو تجزیے کیے ہیں اسے پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہر کہانی پر تجزیہ کرتے وہ تحلیل کے مراحل سے گذرے ہیں۔
اردو فکشن پر ریسرچ کرنے وا لے طلباء کے لیے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔یہ الفاظ تھے جو شعبہ اردو میں منعقدہ پروگرام ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی دوسری تنقیدی کاوش”نئی صدی کا اردو افسانہ“ کی رسمِ اجراء کے مو قع پر ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈا کٹر ارشاد سیانوی کی تنقید عمومی رویوں کے ساتھ مجھے کبھی رو مانی تو کبھی رو حانی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ کہانی کی روح میں اتر کر تجزیہ کرتے ہیں۔ تنقید کے مروجہ اصو لوں سے انحراف ڈا کٹر ارشاد کی شناخت ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازمفتی را حت علی صدیقی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پرو گرام کی صدارت،صدر شعبہ اردو پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کی۔مہمان خصو صی کے بطور پروفیسر سنجیو کما ر شر ما وائس چانسلر، مہاتما گاندھی سینٹرل یو نیورسٹی، بہار نے شرکت کی جبکہ مہمانان کے بطور ڈا کٹر وضا حت حسین رضوی، (ڈپٹی ڈائریکٹر، انفارمیشن،میرٹھ)سید معراج الدین (سابق چیئر مین،پھلاؤدہ)اور معروف فکشن نگار خورشید حیات شریک ہوئے۔استقبالیہ کلمات ڈا کٹر شاداب علیم اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے انجام دیے۔سبھی مہمانان نے مل کر کتاب کی رونمائی کی۔کتاب کا تعارف ڈا کٹر آصف علی نے پیش کیا۔اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کہا کہ یہ کتاب تحقیقی طالب علموں کے لئے بے حد مفید صابت ہوگی۔ ۱۲وی صدی میں ۱۲ کہانیوں کے حوالے سے کئی بدلاؤ پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی کئی بڑے نام چھوٹ گئے جن کو شامل کئے جانے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر سنجیو کمار (وائس چانسلر)نے کہا، اولاد اور طالب علم آگے بڑھ جائے اگر ان سے شکشت بھی مل جائے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اردو شعبۂ کی جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پرشناخت بنی ہے وہیں اس کے طلبہ اپنی رچناؤ کے ذریعہ پہچان بنا رہے ہیں۔ سید میراج الدین پھلاؤدہ نے کتاب کے بارے میں کہا کہ ۱۲صدی ایک چیلنج کا دور ہے جس میں آئے دن نئے تجربے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ایمان داری سے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ وہ ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی کتاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔