مارکسی مورخ عرفان حبیب نے بتایا کہ گاندھی جی اپنی وفات سے قبل وزیراعظم جواہر لال نہرو اور نائب وزیراعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کی یکسوئی کرنا چاہتےت تھے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے عرفان حبیب نے مہاتما گاندھی کے قتل کے دن کی تفصیلات سے واقف کروایا کہ کیسے ناتھورام گوڈسے نے باپو کا قتل کیا تھا اور دائیں بازوں کی جماعتوں کی جانب سے کس طرح ساورکر کو قومی ہیروکے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
گاندھی جی نے سندھی عوام سے آخری گفتگو کی تھی:
مہاتما گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو گولی مارکر ہلاک کیا گیا تھا جبکہ وہ اس وقت پاکستان کے دورہ کے خواہاں تھے اور بھارت کے حالات کو معمول پر لانا چاہتے تھے۔ انتقال کے دن گاندھی جی صبح 3.30 بجے اٹھے اور ایک لمبا نوٹ تیار کیا تھا جس میں کانگریس کو خدمت دل میں تبدیل کرنے کے بارے میں تفصیلات سے بیان کیا گیا تھا۔ نوٹ لکھنے کے بعد گاندھی جی نے اپنے ایک حامی کو نوٹ پڑھنے کےلیے کہا تھا۔ اس دن بہت سارے لوگ گاندھی جی سے ملنا چاہتے تھے جن میں سندھ کے مہاجرین کی اکثریت تھی۔ گاندھی جی نے سب سے ملاقات کی۔ اس وقت صوبہ سندھ میں فسات نہیں ہوا تھا لیکن وہاں کے لوگ کافی پریشان تھے۔
نہرو نے پاکستان کو 55 کروڑ روپئے کی امداد دینے کی حمایت کی تھی:
گاندھی جی نے بھوک ہڑتال کے دوران پاکستان کے سندھ صوبہ کو 55 کروڑ روپئے کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل نے امداد دینے کی مخالفت کی تھی اور نہرو نے حمایت کی تھی جبکہ گاندھی جی دونوں کے درمیان پائی جانے والی متضاد رائے کو حل کرنے کے خواہاں تھے۔ اس تناظر میں گاندھی جی نے 30 جنوری کو 4 بجے سردار پٹیل سے اور 7 بجے شام نہرو سے ملنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ قبل ازیں گاندھی جی کسی ایک کو مستعفی ہونے پر زور دے رہے تھے لیکن بعد میں انہوں نے دونوں کو مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
گاندھی جی چاہتے تھے کہ نہرو اور پٹیل اپنے اپنے عہدوں پر برقرار رہیں۔
جس دن مہاتما گاندھی کا قتل ہوا:
شام کے 5 بجے تھے اور گاندھی جی کو اپنی پوجا کےلیے جانا تھا جبکہ سردار پٹیل میٹنگ کے بعد جاچکے تھے۔
جس وقت گاندھی جی پر گولی چلائی گئی تو وہ زمین پر گرگئے اور ان کے منہ سے ’ہئے رام‘ کے الفاظ ادا ہوئے۔
ناتھورام گوڈسے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے:
عرفان حبیب نے کہا کہ جو شخص گاندھی جی کا دشمن تھا آج اسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ ساورکر نے انگریزوں سے 6 بار معافی بھی مانگی تھی۔
ساورکر پر بھی مقدمہ چلایا گیا لیکن ثبوت کی کمی کی وجہ سے وہ بری ہوگئے تھے۔ اس موقع پر عرفان حبیب نے سوال کیا کہ ناتھورام گوڈسے کو دہلی کے سفر کےلیے کس نے مالی امداد کی تھی؟ جبکہ ان کا خیال ہے کہ بہت ساری چیزیں چھپ گئی ہیں۔
ساورکر بے قصور نہیں تھے:
عرفان حبیب نے مزید کہا کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر سخت تنقید کی تھی کیونکہ گاندھی جی کے انتقال کے بعد ان لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھی اور جشن منایا تھا جبکہ آج یہ لوگ اقتدار پر فائز ہیں۔
گاندھی جی کی موت پر جناح غمزدہ تھے:
گاندھی جی کی ہلاکت پر محمد علی جناح غمزدہ تھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہندو برادری ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی ہے۔ جناح نے اپنی سوانح حیات میں گاندھی جی کو ایک عظیم انسان قرار دیا تھا۔
عرفان حبیب نے کہا کہ غریبوں کی مدد کرنے کےلیے ہمیں گاندھی جی کے فلسفہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔