علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کے کلچرل ہال میں مہاتما گاندھی کے 154ویں یوم پیدائش یعنی گاندھی جینتی کے موقع پر ایک بڑے یادگاری پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس کو خطاب کرتے ہوئے کارگزار وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ مہاتما گاندھی دنیا کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ جنہوں نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، دلائی لامہ، جیمز بے وے، جیمز لاسن، نیلسن منڈیلا، براک اوباما اور البرٹ آئن سٹائن سمیت کئی دیگر مشہور شخصیات کو متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ونسٹن چرچل کو بھی ان کی عدم تشدد کی کامیابی کو دیکھ کر گاندھی جی کو ننگا فقیر کہنے پر اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
UPPCSJ 2023 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میری دوسری ماں، رشمی سنگھ
Gandhi Jayanti 2023 مہاتما گاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کی علامت
انہوں نے گاندھی جی کے اصولوں کی عالمی شناخت کو نشان زد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد نے پوری دنیا میں نوآبادیات کو متاثر کیا۔ انہوں نے پورے عالم سے اپیل کی کہ وہ گاندھی جی کی عام انسانی ہمدردی، بین مذہبی امن اور عقل و روح کی ہم آہنگی کے اقدار کو اپنائے۔ پروفیسر گلریز نے قوم کی آزادی اور سالمیت کے تحفظ اور استحکام کے لیے لگن کے ساتھ کام کرنے کا حلف لیا۔ انہوں نے اے ایم یو کے اساتذہ، طلبا اور غیر تدریسی عملہ کی 'سوچھتا عہد' میں قیادت کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی نے ایک ترقی یافتہ اور صاف ستھرے ملک کو خواب دیکھا تھا اور اسے پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس سے قبل، وائس چانسلر نے مہاتما گاندھی کی حیات و خدمات پر مبنی نایاب کتابوں اور دستاویزات کی نمائش کا افتتاح کیا جو ڈسپلے کیسز اور پیڈسٹلز میں رکھی گئی تھیں اور نایاب فریم شدہ تصویروں میں مہاتما گاندھی کے بچپن، ایک وکیل اور شہری حقوق کے کارکن کے طور پر ان کی زندگی، ہندوستانی جدوجہد آزادی اور سابرمتی آشرم میں ان کی سرگرمیوں کو دکھایا گیا تھا۔ یہ دو روزہ نمائش 3 اکتوبر تک صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک زائرین کے لیے کھلی رہے گی۔ اس موقع پر اے ایم یو کے رجسٹرار محمد عمران (آئی پی ایس) بھی موجود تھے۔ پروفیسر محب الحق (شعبہ سیاسیات) نے اپنی تقریر میں کہا کہ گاندھی جی کی اہمیت اب پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، جب انسانیت کو بہت سی برائیوں کا سامنا ہے اور سماج کو ایک بار پھر ایک ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو بڑے پیمانے پر نفرت کی اشاعت کے خلاف اس کا تریاق تلاش کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ گاندھی جی اکثر خود کو بے بس محسوس کرتے تھے جب وہ دنیا کو ہنگامہ خیز حالت میں دیکھتے تھے جو نظریاتی اختلافات کا نتیجہ ہیں۔ پروفیسر وبھا شرما (شعبہ انگریزی) نے اس بات پر زور دیا کہ گاندھی جی نے ساری زندگی عدم تشدد اور سچائی کو فروغ دینے کے لیے کام کیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے عدم تشدد، ہمدردی اور محبت سے نہیں جیتا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی ایک عظیم انسان تھے جنہوں نے ان لوگوں سے بھی محبت کی جو ان کے نظریات کے خلاف کھڑے تھے تاکہ عدم تشدد کے طریقوں کا استعمال کرکے معاشرے میں ابدی امن قائم کیا جاسکے۔
اے ایم یو کے طلبا محمد علی (بی اے سال دوئم) اور خان آمنہ عاصم (بی اے فائنل) نے اپنی تقریروں میں بتایا کہ کس طرح مہاتما گاندھی نے سچائی کا تجربہ کیا اور کس طرح ان کے عدم تشدد پر مبنی نظریات نئی دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ موزوں اور بامعنی ہیں۔ مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یونیورسٹی لائبریرین پروفیسر نشاط فاطمہ نے نمائش کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے کئی خطوط، جن میں 29 جولائی 1942 کو اے ایم یو کے سابق طالب علم عبدالباری کو لکھا گیا خط اور 7 جنوری 1937 کو اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری کو لکھا گیا خط شامل ہے۔
خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خاص تعلق تھا اور وہ کئی بار علی گڑھ تشریف لائے تھے۔ این ایس ایس کی اے ایم یو یونٹ، احمدی اسکول، سینئر سیکنڈری اسکول گرلز، سید حامد سینئر سیکنڈری اسکول، اے ایم یو اے بی کے ہائی اسکول (بوائز اینڈ گرلز)، اے ایم یو گرلز اسکول، عبداللہ اسکول، اے ایم یو سٹی گرلز ہائی اسکول، آر ایم پی ایس اے ایم یو سٹی اسکول اور ایس ٹی ایس اسکول میں بھی گاندھی جینتی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی اور اس موقع کی مناسبت سے کئی پروگرام منعقد کیے گئے۔