ETV Bharat / state

'اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع سپریم کورٹ نے گنوایا' - فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ 'کے کے نیر' نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا

سپریم کورٹ میں بابری مسجد ایودھیا فیصلے پر نظرثانی کی 18 درخواستوں پر سماعت ہوئی لیکن کورٹ نے نظر ثانی کی ان تمام درخواستوں کو خارج کردیا۔

'اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع سپریم کورٹ نے گنوایا'
'اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع سپریم کورٹ نے گنوایا'
author img

By

Published : Dec 13, 2019, 3:41 AM IST

مسلم پرسنل لا بورڈ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کی تھی۔

انہیں امید تھی کہ سپریم کورٹ اس پر دوبارہ غور و فکر کرے گا لیکن سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے صاف کہہ دیا کہ ہم نظرثانی نہیں کریں گے اور سبھی 18 درخواستوں کو خارج کر دیا۔

بابری مسجد کیس کو فیض آباد عدالت سے لکھنؤ ہائی کورٹ بنچ میں لانے والے جسٹس عباس حیدر رضا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ، آج سپریم کورٹ کے فیصلے سے مجھے خود پر شرم آنے لگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں خود اس کا مجرم ہوں، اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں کیوں کہ میں نے ہی سارے مقدمات کو جو فیض آباد میں چل رہے تھے ان کو لکھنو لایا اس امید سے کہ ہائی کورٹ میں سماعت ہوگی تو بہتر فیصلہ آئے گا۔

'اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع سپریم کورٹ نے گنوایا'

سرکار نے یہ مانا تھا کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا اور اس وقت کے فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ 'کے کے نیر' نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا۔ لہذا ہمیں پوری امید تھی کہ ہائیکورٹ بہتر فیصلہ کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

' اس نے بابری مسجد متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ بابری مسجد کو دیا، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو جبکہ تیسراحصہ رام للا کو دیا۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بالکل غلط تھا'۔

اس کے بعد سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا یہاں لگا کہ انصاف ہوگا لیکن قانونی نقطہ نظر سے، بھارت کے دستور کے نقطہ نظر سے سپریم کورٹ نے بالکل غلط فیصلہ سنا کر ہم سب کو حیران کر دیا، ہمیں اس کی بالکل بھی امید نہیں تھی۔

سپریم کورٹ کے پاس اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے کا ایک بہترین موقع ریویو پٹیشن تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسے بھی کھودیا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کی تھی۔

انہیں امید تھی کہ سپریم کورٹ اس پر دوبارہ غور و فکر کرے گا لیکن سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے صاف کہہ دیا کہ ہم نظرثانی نہیں کریں گے اور سبھی 18 درخواستوں کو خارج کر دیا۔

بابری مسجد کیس کو فیض آباد عدالت سے لکھنؤ ہائی کورٹ بنچ میں لانے والے جسٹس عباس حیدر رضا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ، آج سپریم کورٹ کے فیصلے سے مجھے خود پر شرم آنے لگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں خود اس کا مجرم ہوں، اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں کیوں کہ میں نے ہی سارے مقدمات کو جو فیض آباد میں چل رہے تھے ان کو لکھنو لایا اس امید سے کہ ہائی کورٹ میں سماعت ہوگی تو بہتر فیصلہ آئے گا۔

'اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع سپریم کورٹ نے گنوایا'

سرکار نے یہ مانا تھا کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا اور اس وقت کے فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ 'کے کے نیر' نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا۔ لہذا ہمیں پوری امید تھی کہ ہائیکورٹ بہتر فیصلہ کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

' اس نے بابری مسجد متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ بابری مسجد کو دیا، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو جبکہ تیسراحصہ رام للا کو دیا۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بالکل غلط تھا'۔

اس کے بعد سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا یہاں لگا کہ انصاف ہوگا لیکن قانونی نقطہ نظر سے، بھارت کے دستور کے نقطہ نظر سے سپریم کورٹ نے بالکل غلط فیصلہ سنا کر ہم سب کو حیران کر دیا، ہمیں اس کی بالکل بھی امید نہیں تھی۔

سپریم کورٹ کے پاس اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے کا ایک بہترین موقع ریویو پٹیشن تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسے بھی کھودیا۔

Intro:سپریم کورٹ میں آج بابری مسجد ایودھیا فیصلے پر نظرثانی کی 18 درخواستوں پر سماعت ہوئی لیکن کورٹ نے نظر ثانی کی ان تمام درخواستوں کو خارج کردیا۔


Body:مسلم پرسنل لا بورڈ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کی تھی۔

انہیں امید تھی کہ سپریم کورٹ اس پر دوبارہ غور و فکر کرے گا لیکن آج سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے صاف کہہ دیا کہ ہم نظرثانی نہیں کریں گے اور سبھی 18 درخواستوں کو خارج کر دیا۔

بابری مسجد کیس کو فیض آباد عدالت سے لکھنؤ ہائی کورٹ بنچ میں لانے والے جسٹس عباس حیدر رضا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ، "آج سپریم کورٹ کے فیصلے سے مجھے خد پر شرم آنے لگی ہے۔


انہوں نے نے کہا کہ میں خود اس کا مجرم ہوں، اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں کیوں کہ میں نے ہی سارے مقدمات کو جو فیض آباد میں چل رہے تھے ان کو لکھنو لایا اس امید سے کہ ہائی کورٹ میں سماعت ہوگی تو بہتر فیصلہ آئے گا۔

سرکار نے یہ مانا تھا کہ مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا اور اس وقت کے فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ 'کے کے نیر' نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا۔ لہذا ہمیں پوری امید تھی کہ ہائیکورٹ بہتر فیصلہ کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

" اس نے بابری مسجد متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ بابری مسجد کو دیا، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو جبکہ تیسراحصہ رام للا کو دیا۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بالکل غلط تھا۔"

اس کے بعد سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا یہاں لگا کہ انصاف ہوگا لیکن قانونی نقطہ نظر سے، بھارت کے دستور کے نقطہ نظر سے سپریم کورٹ نے بالکل غلط فیصلہ سنا کر ہم سب کو حیران کر دیا، ہمیں اس کی بالکل بھی امید نہیں تھی۔



Conclusion:سپریم کورٹ کے پاس اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے کا ایک بہترین موقع ریویو پٹیشن تھا لیکن آج سپریم کورٹ نے اسے بھی کھودیا۔

اب مجھے خود پر بڑی شرم آ رہی ہے کہ میں کیوں نیو فیض آباد ہے مقدمات کو ہائی کورٹ لے گیا۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.