اس معاملے پر کسان یونین کے رہنما نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا اور کہا کہ اس کے لیے ریاستی حکومت ہی ذمہ دار ہے۔
اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پریس کانفرنس کے دوران بھارتی کسان یونین کے رہنما ہرینام سنگھ ورما نے بات چیت کے دوران بتایا کہ اناؤ میں جس طرح سے پولیس نے غریب کسانوں کو زخمی کیا ہے ہم اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ' پولیس گھروں میں گھس کر تلاش لے رہی ہے یہاں تک کہ خواتین کوبھی نہیں چھوڑ رہی جس وجہ سے مرد کسان گھر، گاؤں چھوڑ کر گمنام جگہ چلے گئے ہیں۔'
اتنا ہی نہیں پولیس والے غریب کسانوں کی گھروں کے جانوروں کو کھلا چھوڑ دے رہے ہیں تاکہ وہ ادھر ادھر چلے جائیں۔
کسان رہنما نے الزام لگایا کہ اس معاملے میں مقامی پولیس اور ضلعی انتظامیہ شامل ہیں۔ خاص طور پر ایس پی اور ڈی ایم، لہٰذا ان دونوں پر سخت کارروائی کرکے انہیں جیل بھیجا جانا چاہیے۔
اناؤ کی ٹرانس گنگا سٹی ٹی کے لئے 2002 میں زمین لینے کی کارروائی شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2005 میں زمین متاثرہ کسانوں کی یو پی ایس آئی ڈی سی کے نام بنا تحریر کئے۔
کسان رہنما نے کہا کہ 'یہی نہیں 2007 میں آپسی سمجھوتے کے تحت پانچ لاکھ روپیہ کسانوں کو ایک بیگھا کے حساب سے دیا جانا چاہیے تھا، لیکن 2008 میں کسانوں کی زمین کسانوں کا نام پر واپس کردی گئی۔ اس کے بعد 2011 میں کسانوں کو پیسہ دینا تھا لیکن 2015 میں ایک اور سمجھوتہ ہوا لیکن یو پی ایس آئی ڈی سی اور انتظامیہ کے دلالوں نے سادہ کاغذ پر ایک محائدہ کیا جس میں سات-سات لاکھ روپیہ کسانوں کو چار قسطوں میں دینے کی بات تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔'
لہٰذا کسان اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگے، جب کسانوں نے اس کا احتجاج شروع کیا تو یو پی ایس آئی ڈی سی کے ملازمین اور ضلع انتظامیہ نے مل کر 50ہزار روپیہ کمیشن دینے والے کسانوں کو ہی پیسہ دینے کی کارروائی شروع کی۔
اس کے بعد کسانوں نے احتجاج شروع کردیا جس کے بعد پولیس ان سے سختی سے نپٹی اور انہیں بری طرح مارا پیٹا جس میں کسان زخمی ہوئے۔
کسان یونین کے رہنما نے کہا کہ' اگر حکومت نے اس معاملے میں جلد کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ہم پورے صوبہ میں احتجاج کریں گے کیونکہ یہ ہمارے حقوق کا مسئلہ ہے۔'