ETV Bharat / state

بابری مسجد انہدام سے متعلق وہ چہرے جنہیں آپ کبھی بھول نہیں سکتے - بابری مسجد انہدام

بھارت میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کو آزادی کے بعد کا سب سے بڑا سانحہ شمار کیا جاتا ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں ایسے لوگوں پر جن پر اس پورے واقعے کو انجام دینے کی ذمہ داری آتی ہے۔

Faces related to Babri Masjid demolition that you can't forget
بابری مسجد انہدام سے متعلق چہرے جو آپ بھول نہیں سکتے
author img

By

Published : Aug 4, 2020, 5:19 PM IST

Updated : Sep 30, 2020, 8:09 AM IST

ایک طویل تنازعہ اور عدالتی طریقہ کار سے گزرنے کے بعد گذشتہ برس سپریم کورٹ نے ایودھیا میں واقع رام جنم بھومی اراضی تنازعہ میں ایک حتمی فیصلہ دیا تھا۔ فیصلہ آنے کے بعد گذشتہ ماہ مندر میں بھومی پوجن کی تقریب منعقد کی گئی جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے بنفس نفیس شرکت کی جس کی کئی سیاسی جماعتوں، اہم شخصیات، سول سوسائیٹی کی سرکردہ شخصیات نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔

ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد رام جنم بھومی تحریک سے وابستہ ہندو رہنماؤں میں وشوو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیڈر اشوک سنگھل اور بی جے پی کے سابق رہنما ایل کے اڈوانی کی شراکت داری اہم مانی جاتی ہے۔

لال کرشن اڈوانی (سابق بی جے پی صدر)

1990 میں ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) قومی سطح پر اپنی پارٹی کو بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ 1984 کے عام انتخابات میں پارٹی نے لوک سبھا میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں۔ 1989 تک پارٹی نے لوک سبھا کی 80 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لال کرشن اڈوانی 1989 میں پارٹی کے صدر بنے۔ جس کے بعد دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور بی جے پی اقتدار میں آئی۔

ویڈیو

اڈوانی نے 25 ستمبر 1990 کو گجرات کے سومناتھ سے رتھ یاترا کا آغاز کیا تھا ، جو 30 اکتوبر کو مختلف ریاستوں کے راستے ایودھیا پہنچنا تھا۔ اڈوانی وہاں کارسیوا میں شامل ہونے جا رہے تھے۔ 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 100 کا ہندسہ عبور کیا۔ 6 دسمبر 1992 کو ، جب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تھا، تو ایودھیا میں ایک کے اڈوانی اور دیگر بی جے پی قائدین کارسیوکوں کے ہجوم سے خطاب کر رہے تھے۔

کلیان سنگھ (سابق وزیر اعلی، اترپردیش)

دسمبر 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے۔ یہ اترپردیش کے وزیر اعلی کا فرض تھا کہ وہ نظریاتی جھکاؤ کے باوجود بابری مسجد کی سلامتی کو یقینی بناتے۔ تحریری یقین دہانی سے لے کر اسمبلی میں تقریر تک، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت بابری مسجد کو تحفظ فراہم کرے گی۔ یہاں تک کہ سنگھ نے مسجد کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو چار نکاتی حلف نامہ دینے کا وعدہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ صرف علامتی کار سیوا کی اجازت ہوگی۔

کلیان سنگھ ان تیرہ لوگوں میں شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ اصل چارج شیٹ میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کی 'سازش' میں ملوث ہیں۔ سی بی آئی کی اصل چارج شیٹ کے مطابق ، 1991 میں وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد ، کلیان سنگھ نے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایودھیا سے حلف لیا تھا کہ متنازعہ جگہ پر ہی مندر تعمیر ہوگا۔

پی وی نرسمہا راو( سابق وزیر اعظم)

اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ چاہتے تھے کہ دونوں مذہبی گروہ ایک دوسرے سے بات کر کےمسجد کے پاس ہی ایک مندر کی بھی تعمیر کرنے کی راہ ہموار کریں اور مسجد کو بحفاظت چھوڑ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریق میں سے کوئی بھی اگر اس پر راضی نہیں ہوتا تو عدالت کا فیصلہ آخری ہوگا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ راؤ نے مسجد کے تحفظ کے لیے حتمی فیصلہ لینے اور وہاں سکیورٹی کے انتظامات سخت کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ لینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی اور انہوں نے مسجد کی حفاظت کے لیے ہنگامی منصوبہ بھی بنایا تھا لیکن اس کا کیا بنا اس کی کسی کو کوئی معلومات نہیں ہے۔

لالو پرساد یادو(سابق وزیر اعلی، بہار)

اڈوانی کی گرفتاری کا یہ سب سے موافق موقع تھا اور لالو یادو نے اس میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں کی۔ اڈوانی کی رتھ یاترا جو 25 ستمبر کو سومناتھ سے شروع ہوئی تھی، 30 اکتوبر کو ایودھیا پہنچنا تھا لیکن 23 اکتوبر کو بہار میں اڈوانی کو لالو یادو کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔ اڈوانی کی گرفتاری کے بعد مرکز کی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ بی جے پی نے مرکز میں حکمران وی پی سنگھ حکومت سے حمایت واپس لے لی، جس میں لالو پرساد یادو کی پارٹی بھی شراکت دار تھی جس کے باعث حکومت گر گئی۔

اوما بھارتی (بی جے پی رہنما)

رام جنم بھومی تحریک میں اوما بھارتی کا اہم رول تھا۔ ایودھیا میں ریلی کے دوران وہ بی جے پی کے اعلی رہنماؤں میں سے ایک تھیں۔ اوما بھارتی نے کہا تھا کہ وہ اس حادثے کی اخلاقی ذمہ داری لیتی ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ قانونی طور سے لڑائی لڑیں گی۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا کے رام جنم بھومی تنازعہ میں حتمی فیصلہ سنایا تھا، تب اوما بھارتی نے کہا تھا کہ اڈوانی جی کا خیر مقدم، جن کی قیادت میں ہم سب لوگوں نے اس کام کو کرنے میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

اشوک سنگھل (وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ)

وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ اشوک سنگھل 'سنگھ پریوار' کے اہم لوگوں میں سے ایک تھے۔ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر وشو ہندو پریشد کے رہنما اشوک سنگھل رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کی تحریک کا مرکزی ستون رہے۔ اشوک سنگھل نے 20 نومبر 1992 کو بال ٹھاکرے سے ملاقات کی اور انہیں کارسیوا میں شرکت کی دعوت دی۔ 4 دسمبر 1992 کو بال ٹھاکرے نے شیو سینا کے کارکنان کو ایودھیا جانے کا حکم دیا۔ 5 دسمبر کو اشوک سنگھل نے کہا تھا ، "مندر کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹ ہوگی، ہم اسے دور کرلیں گے۔" کار سیوا صرف بھجن کیرتن کے لیے نہیں ہے بلکہ مندر میں تعمیراتی کام کا آغاز کرنے کے لیے ہے۔ جب بابری مسجد کو منہدم کیا جا رہا تھا تب ملزمان خوش تھے اور اسٹیج پر مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں۔

آج 28 برس بعد اس کا فیصلہ آنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کلیدی ملزمین کو پیشی سے چھوٹ کے بعد عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے۔

ایک طویل تنازعہ اور عدالتی طریقہ کار سے گزرنے کے بعد گذشتہ برس سپریم کورٹ نے ایودھیا میں واقع رام جنم بھومی اراضی تنازعہ میں ایک حتمی فیصلہ دیا تھا۔ فیصلہ آنے کے بعد گذشتہ ماہ مندر میں بھومی پوجن کی تقریب منعقد کی گئی جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے بنفس نفیس شرکت کی جس کی کئی سیاسی جماعتوں، اہم شخصیات، سول سوسائیٹی کی سرکردہ شخصیات نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔

ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد رام جنم بھومی تحریک سے وابستہ ہندو رہنماؤں میں وشوو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیڈر اشوک سنگھل اور بی جے پی کے سابق رہنما ایل کے اڈوانی کی شراکت داری اہم مانی جاتی ہے۔

لال کرشن اڈوانی (سابق بی جے پی صدر)

1990 میں ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) قومی سطح پر اپنی پارٹی کو بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ 1984 کے عام انتخابات میں پارٹی نے لوک سبھا میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں۔ 1989 تک پارٹی نے لوک سبھا کی 80 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لال کرشن اڈوانی 1989 میں پارٹی کے صدر بنے۔ جس کے بعد دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور بی جے پی اقتدار میں آئی۔

ویڈیو

اڈوانی نے 25 ستمبر 1990 کو گجرات کے سومناتھ سے رتھ یاترا کا آغاز کیا تھا ، جو 30 اکتوبر کو مختلف ریاستوں کے راستے ایودھیا پہنچنا تھا۔ اڈوانی وہاں کارسیوا میں شامل ہونے جا رہے تھے۔ 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 100 کا ہندسہ عبور کیا۔ 6 دسمبر 1992 کو ، جب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تھا، تو ایودھیا میں ایک کے اڈوانی اور دیگر بی جے پی قائدین کارسیوکوں کے ہجوم سے خطاب کر رہے تھے۔

کلیان سنگھ (سابق وزیر اعلی، اترپردیش)

دسمبر 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے۔ یہ اترپردیش کے وزیر اعلی کا فرض تھا کہ وہ نظریاتی جھکاؤ کے باوجود بابری مسجد کی سلامتی کو یقینی بناتے۔ تحریری یقین دہانی سے لے کر اسمبلی میں تقریر تک، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت بابری مسجد کو تحفظ فراہم کرے گی۔ یہاں تک کہ سنگھ نے مسجد کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو چار نکاتی حلف نامہ دینے کا وعدہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ صرف علامتی کار سیوا کی اجازت ہوگی۔

کلیان سنگھ ان تیرہ لوگوں میں شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ اصل چارج شیٹ میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کی 'سازش' میں ملوث ہیں۔ سی بی آئی کی اصل چارج شیٹ کے مطابق ، 1991 میں وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد ، کلیان سنگھ نے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایودھیا سے حلف لیا تھا کہ متنازعہ جگہ پر ہی مندر تعمیر ہوگا۔

پی وی نرسمہا راو( سابق وزیر اعظم)

اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ چاہتے تھے کہ دونوں مذہبی گروہ ایک دوسرے سے بات کر کےمسجد کے پاس ہی ایک مندر کی بھی تعمیر کرنے کی راہ ہموار کریں اور مسجد کو بحفاظت چھوڑ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریق میں سے کوئی بھی اگر اس پر راضی نہیں ہوتا تو عدالت کا فیصلہ آخری ہوگا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ راؤ نے مسجد کے تحفظ کے لیے حتمی فیصلہ لینے اور وہاں سکیورٹی کے انتظامات سخت کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ لینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی اور انہوں نے مسجد کی حفاظت کے لیے ہنگامی منصوبہ بھی بنایا تھا لیکن اس کا کیا بنا اس کی کسی کو کوئی معلومات نہیں ہے۔

لالو پرساد یادو(سابق وزیر اعلی، بہار)

اڈوانی کی گرفتاری کا یہ سب سے موافق موقع تھا اور لالو یادو نے اس میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں کی۔ اڈوانی کی رتھ یاترا جو 25 ستمبر کو سومناتھ سے شروع ہوئی تھی، 30 اکتوبر کو ایودھیا پہنچنا تھا لیکن 23 اکتوبر کو بہار میں اڈوانی کو لالو یادو کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔ اڈوانی کی گرفتاری کے بعد مرکز کی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ بی جے پی نے مرکز میں حکمران وی پی سنگھ حکومت سے حمایت واپس لے لی، جس میں لالو پرساد یادو کی پارٹی بھی شراکت دار تھی جس کے باعث حکومت گر گئی۔

اوما بھارتی (بی جے پی رہنما)

رام جنم بھومی تحریک میں اوما بھارتی کا اہم رول تھا۔ ایودھیا میں ریلی کے دوران وہ بی جے پی کے اعلی رہنماؤں میں سے ایک تھیں۔ اوما بھارتی نے کہا تھا کہ وہ اس حادثے کی اخلاقی ذمہ داری لیتی ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ قانونی طور سے لڑائی لڑیں گی۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا کے رام جنم بھومی تنازعہ میں حتمی فیصلہ سنایا تھا، تب اوما بھارتی نے کہا تھا کہ اڈوانی جی کا خیر مقدم، جن کی قیادت میں ہم سب لوگوں نے اس کام کو کرنے میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

اشوک سنگھل (وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ)

وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ اشوک سنگھل 'سنگھ پریوار' کے اہم لوگوں میں سے ایک تھے۔ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر وشو ہندو پریشد کے رہنما اشوک سنگھل رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کی تحریک کا مرکزی ستون رہے۔ اشوک سنگھل نے 20 نومبر 1992 کو بال ٹھاکرے سے ملاقات کی اور انہیں کارسیوا میں شرکت کی دعوت دی۔ 4 دسمبر 1992 کو بال ٹھاکرے نے شیو سینا کے کارکنان کو ایودھیا جانے کا حکم دیا۔ 5 دسمبر کو اشوک سنگھل نے کہا تھا ، "مندر کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹ ہوگی، ہم اسے دور کرلیں گے۔" کار سیوا صرف بھجن کیرتن کے لیے نہیں ہے بلکہ مندر میں تعمیراتی کام کا آغاز کرنے کے لیے ہے۔ جب بابری مسجد کو منہدم کیا جا رہا تھا تب ملزمان خوش تھے اور اسٹیج پر مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں۔

آج 28 برس بعد اس کا فیصلہ آنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کلیدی ملزمین کو پیشی سے چھوٹ کے بعد عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے۔

Last Updated : Sep 30, 2020, 8:09 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.