ETV Bharat / state

یوپی میں مدارس کو ہائی کورٹ میں داخل مفاد عامہ کی عرضی سے شدید خطرہ کا اندیشہ

لکھنو کے لال کنواں کے سچھک بھون میں ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اتر پردیش کے مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ریاست کے ضلعی صدر سیکرٹری اور تمام تر عہدے داران نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں ریاست بھر میں مدارس کو آنے والی دشواریاں اور اساتذہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام تر حکمت عملی بنائی گئی۔ conditions of Madrassas in UP

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 2, 2023, 1:35 PM IST

eachers_association_madaris
eachers_association_madaris
conditions of Madrassas in UP

لکھنو: ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری مولانا دیوان صاحب زمان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں مدارس کو کئی مسائل در پیش ہیں اور ٹیچرز کو کئی چیلینجوں کا سامنا ہے۔ انہی چیلنجز اور پریشانیوں کے حل کے لیے ہم نے ریاست بھر کے عہدیداران کو طلب کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک حکومت کے ذریعے مدارس میں عمل دخل کر کے پریشانیاں پیدا کی جا رہی تھیں لیکن آنے والے کچھ مہینوں میں اتر پردیش کے مدارس کو سب سے بڑا خطرہ عدالت کے حکم نامے سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں دو ایسے مفاد عامہ کی عرضی ہیں جن پر اگر کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا تو ریاست کے سبھی مدارس کو شدید نقصان ہوگا یہاں تک کہ انہیں بند بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک مفاد عامہ کی عرضی کا ذکر کرتے ہوئے دیوان صاحب زماں نے کہا کہ 2019 میں ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے کر کے عرضی پر سماعت کی تھی کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں کسی خاص مذہب کی تعلیم کے لیے ادارے کیسے قائم کیے جاتے ہیں اور سرکاری خزانے سے کیسے امداد کی جا سکتی ہے۔ جس پر عدالت نے ججز کا ایک بینچ بنایا تھا اور وہ بینچ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔

دوسری مفاد عامہ کی عرضی عدالت میں یہ پیش کی گئی تھی کہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنی کیوں ہیں مدارس پر بھی رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کا نفاذ ہونا ضروری ہے۔ اگر عدالت نے اس پہ حکم نامہ جاری کیا تو ریاست میں جتنے بھی غیر منظور شدہ مدارس ہیں ان تمام مدارس کو مدرسہ بورڈ سے الحاق کرانا پڑے گا اگر نہیں کراتے ہیں تو ان پر کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔ جس میں لکھنو میں واقع ندوۃ العلماء و دارالعلوم دیوبند سمیت ریاست کے تقریبا آٹھ ہزار مدارس آتے ہیں جن کو شدید پریشانی لاحق ہوسکتی ہیں۔

مولانا دیوان صاحب زماں نے کہا کہ ان مسائل کےحل کے لیے ہم نے بھی ایک ماہر وکیل کو ہائر کیا ہے اور عدالت میں اس کا جواب پیش کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کے اختیار میں غیر منظور شدہ مدارس کو الحاق کرنا ہے اگر وہ چاہیں تو ریاست کے تمام غیر منظور شدہ مدارس کو منظوری دے سکتے ہیں یا الحاق کر سکتے ہیں اس میں وزیراعلی کو خط لکھنا اور ان سے مطالبہ کرنا غیر مناسب ہے۔

مزید پڑھیں: اترپردیش مدرسہ بورڈ کا مدارس کے تعلق سے اہم فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا خط ہی نہیں ہے جس میں مدارس کی منظوری پر پابندی لگائی گئی ہو، لہذا عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ مدارس کو منظور نہیں کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ، اتر پردیش مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ اور ان کے مسائل اور ان کے حقوق پر کام کرتی ہے جس کے ہر ضلع میں سیکرٹری اور اعلی عہدیداران حکومت تک بذریعے خط یا احتجاج اپنی بات پہنچاتے ہیں۔

conditions of Madrassas in UP

لکھنو: ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری مولانا دیوان صاحب زمان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں مدارس کو کئی مسائل در پیش ہیں اور ٹیچرز کو کئی چیلینجوں کا سامنا ہے۔ انہی چیلنجز اور پریشانیوں کے حل کے لیے ہم نے ریاست بھر کے عہدیداران کو طلب کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک حکومت کے ذریعے مدارس میں عمل دخل کر کے پریشانیاں پیدا کی جا رہی تھیں لیکن آنے والے کچھ مہینوں میں اتر پردیش کے مدارس کو سب سے بڑا خطرہ عدالت کے حکم نامے سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں دو ایسے مفاد عامہ کی عرضی ہیں جن پر اگر کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا تو ریاست کے سبھی مدارس کو شدید نقصان ہوگا یہاں تک کہ انہیں بند بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک مفاد عامہ کی عرضی کا ذکر کرتے ہوئے دیوان صاحب زماں نے کہا کہ 2019 میں ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے کر کے عرضی پر سماعت کی تھی کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں کسی خاص مذہب کی تعلیم کے لیے ادارے کیسے قائم کیے جاتے ہیں اور سرکاری خزانے سے کیسے امداد کی جا سکتی ہے۔ جس پر عدالت نے ججز کا ایک بینچ بنایا تھا اور وہ بینچ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔

دوسری مفاد عامہ کی عرضی عدالت میں یہ پیش کی گئی تھی کہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنی کیوں ہیں مدارس پر بھی رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کا نفاذ ہونا ضروری ہے۔ اگر عدالت نے اس پہ حکم نامہ جاری کیا تو ریاست میں جتنے بھی غیر منظور شدہ مدارس ہیں ان تمام مدارس کو مدرسہ بورڈ سے الحاق کرانا پڑے گا اگر نہیں کراتے ہیں تو ان پر کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔ جس میں لکھنو میں واقع ندوۃ العلماء و دارالعلوم دیوبند سمیت ریاست کے تقریبا آٹھ ہزار مدارس آتے ہیں جن کو شدید پریشانی لاحق ہوسکتی ہیں۔

مولانا دیوان صاحب زماں نے کہا کہ ان مسائل کےحل کے لیے ہم نے بھی ایک ماہر وکیل کو ہائر کیا ہے اور عدالت میں اس کا جواب پیش کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کے اختیار میں غیر منظور شدہ مدارس کو الحاق کرنا ہے اگر وہ چاہیں تو ریاست کے تمام غیر منظور شدہ مدارس کو منظوری دے سکتے ہیں یا الحاق کر سکتے ہیں اس میں وزیراعلی کو خط لکھنا اور ان سے مطالبہ کرنا غیر مناسب ہے۔

مزید پڑھیں: اترپردیش مدرسہ بورڈ کا مدارس کے تعلق سے اہم فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا خط ہی نہیں ہے جس میں مدارس کی منظوری پر پابندی لگائی گئی ہو، لہذا عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ مدارس کو منظور نہیں کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ، اتر پردیش مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ اور ان کے مسائل اور ان کے حقوق پر کام کرتی ہے جس کے ہر ضلع میں سیکرٹری اور اعلی عہدیداران حکومت تک بذریعے خط یا احتجاج اپنی بات پہنچاتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.