تاہم گزشتہ چند برسوں سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی منظر عام پر آرہی ہے کہ عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی نہ کرکے قربانی کے حصہ کا اتنا پیسہ کسی فلاحی کام یا غریب کی امداد میں خرچ کردیا جائے۔ اس متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے ریاست اترپردیش کے رامپور کے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر سید عبداللہ طارق سے خصوصی بات چیت کی۔
اسلامی سال کا آخری مہینہ ذی الحج کی اسلامی دنیا میں کافی اہمیت ہے۔ جہاں یہ مہینہ فریضہ حج کی ادائیگی کے طور پر جانا جاتا ہے وہیں اس مہینے میں پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عظیم سنت کو ادا کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان 10، 11 اور 12 ذی الحجہ کو چند حلال اور مخصوص جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ 10 ذی الحجہ کے دن پوری دنیا کے مسلمان عید الاضحیٰ کی نماز دوگانہ عید گاہوں یامساجد میں ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مشورے بھی منظر عام پر آرہے ہیں کہ قربانی میں جانوروں کا ذبیحہ نہ کرکے اتنا پیسہ کسی غریب کی مدد یا کسی فلاحی کاموں میں خرچ دیا جائے۔
اس سے متعلق معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر سید عبداللہ طارق نے ای ٹی وی بھارت سے اپنی خصوصی بات چیت کہا کہ مختصر لفظوں میں کہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے مناسک کا آپس میں رد وبدل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قربانی بھی ایک منسک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نماز کے بدلے روزے نہیں رکھ سکتے۔ اور نہ روزوں کی جگہ نماز ادا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ حج اداکرہے ہیں ان پر قربانی فرض ہے۔ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں اور حج ادنہیں کرہے ہیں ان کے قربانی کا عمل واجب ہے۔ اور یہ بڑااہم منسک ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی مسلمان صدقہ دیاتا ہے تو صدقہ دینے کی وجہ سے اس کے ذمہ سے فرض یا واجب ساقط نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح قربانی کا بدل کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
عبداللہ طارق نے کہا کہ ہر منسک کا ایک مقصد ہوتا ہے اس لئے یہ مقاصد بھی اندورنی طور پر تبدیل نہیں ہوں گے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے عبداللہ طارق نے کہا کہ قربانی جیسا عظیم عمل ادا کرتے وقت ہماری آنکھوں کے سامنے وہ منظر رہنا چاہیے کہ قربانی سے جو جذبہ باری تعالی کو مطلوب تھا۔ وہ یہ ہے کہ چاہے ہماری جان ہو، اولاد یا عزیز ترین شئے ہی کیوں نہ ہو وقت پڑنے راہ خدا میں اسے قربان کرنے کے لئے پرعزم رہنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:بڑے جانور کی قربانی کے معاملے پر ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل
انہوں نے ایسے لوگوں پر تنقید کی جو اپنی قربانی کے حصہ کے پیسے دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے حصہ کی کب قربانی ہوئی۔